اپریل 11, 2025 5:34 صبح

English / Urdu

Follw Us on:

پوڈکاسٹ کلچر: نئی نسل کی آواز یا ریٹنگ کا کھیل؟

افضل بلال
افضل بلال
پوڈکاسٹ دو الفاظ پلے ایبل آن ڈیمانڈ اور براڈکاسٹ سے مل کر بنا ہے۔ (فوٹو: سوشل ماےسٹرو)

آمنے سامنے بیٹھیں اور دنیا جہاں کے موضوعات پر بحث کر ڈالیں، ہر ایک موضوع کو کرید کرید کے بیان کریں، چبھتے سوالات کا بہترین جواب ملے تو ویوز کی بھرمار ہوجائے، جی ہاں اب ٹاک شوز کون دیکھتا ہے سبھی تو موبائل فونز پر ’پوڈ کاسٹ‘ دیکھتے ہیں۔

دنیا بھرمیں 30 ستمبرکوپوڈ کاسٹ ڈے منایا جاتا ہے۔ انٹرنیشنل پوڈ کاسٹ ڈے کا سفر 2013 میں شروع ہوا، جب ڈیو لی نے ریڈیو پر نیشنل سینئرز ڈے کا اعلان سنا اور سوچا کہ پوڈ کاسٹنگ کو منانے کے لیے ایک دن کی بہت ضرورت ہے۔

پوڈکاسٹ ایک ڈیجیٹل ذریعۂ ابلاغ ہے، جو آڈیو فارم میں دستیاب ہوتاہے، جسے کمپیوٹر یا موبائل ڈیوائس کی مدد سے آسانی سے سنا جاسکتا ہے۔ عام طور پر پوڈکاسٹ سلسلہ وار نشر کیا جاتا ہے۔ پوڈکاسٹ دو الفاظ پلے ایبل آن ڈیمانڈ اور براڈکاسٹ سے مل کر بنا ہے۔

آج کے دور میں پوڈکاسٹ دنیا بھر کے نوجوانوں میں خاصا مقبول ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ پوڈ کاسٹنگ افراد کو جلد بازی میں مواد استعمال کرنے کا ایک مددگار اور کھلا راستہ فراہم کرتا ہے۔

آج کے اس ترقی یافتہ ڈیجیٹل دور میں پوڈکاسٹ تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں اور اسے روایتی میڈیا کا متبادل کہا جارہا ہے۔ پوڈکاسٹ کی مقبولیت کی بڑی وجہ انفارمیشن کا نئے طریقہ کار سے سامنے آنا ہے۔

پوڈکاسٹ سیاست، کامیڈی، ٹیکنالوجی اور لائف اسٹائل سمیت مختلف موضوعات پر بنائی جا رہی ہیں، یہ سامعین کو روایتی ذرائع سے ہٹ کر ایک نیا تجربہ فراہم کرتے ہیں۔

ماہرین اس کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں، کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ  پوڈکاسٹ معلومات کا طاقتور ذریعہ ہیں، جب کہ کچھ اسے تفریحی پلیٹ فارم قرار دیتے ہیں۔

پوڈکاسٹ کی مقبولیت کی بڑی وجہ انفارمیشن کا نئے طریقہ کار سے سامنے آنا ہے۔ (فوٹو: کنسویو یونیورسٹی)

بڑھتی ہوئی سننے کی شرح اور عالمی سطح پر ان کی مقبولیت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پوڈکاسٹ جدید دور کے میڈیا کا ایک اہم جزو بن چکے ہیں۔

اگر پوڈکاسٹ کے بزنس ماڈل کی بات کی جائے توان کا بزنس ماڈل اسپانسرشپ، ایڈورٹائزنگ اور پیڈ سبسکرپشن ہے، یہ ذرائع اب ذریعہ آمدنی بن چکے ہیں۔

پوڈکاسٹس کے تخلیق کار زیادہ سے زیادہ سامعین حاصل کرنے کے لیے وائرل کنٹینٹ اور ریٹنگز پر زور دیتے ہیں، جس کے باعث مواد کے معیار کے بجائے سنسنی خیزی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

اکثر پوڈکاسٹرز متنازعہ بیانات اور غیر معیاری گفتگو کے ذریعے مقبولیت حاصل کررہے ہیں، جس سے میڈیا انڈسٹری میں اخلاقی اور پیشہ ورانہ اصولوں پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔

پاکستان میں ابھی پوڈکاسٹ انڈسٹری ابھر رہی ہے، جس کی وجہ سے اسے کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے، جن میں محدود مونیٹائزیشن آپشنز، تکنیکی وسائل کی کمی اور انٹرنیٹ کی بہتر رسائی اہم ہیں۔

یہ پلیٹ فارم نئے ٹیلنٹ کو آگے لانے کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے، اگرچہ کچھ حلقے اسے پہلے سے مشہور شخصیات کی اجارہ داری قرار دیتے ہیں۔

نوجوانوں کے لیے پوڈکاسٹ ایک مفید ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن  کامیابی کے حصول کے لیے معیار، مستقل مزاجی اور تخلیقی انداز کی سخت ضرورت ہے۔

‘پاکستان میٹرز’ سے ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ حمزہ قریشی نے پوڈکاسٹ کلچر کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوڈکاسٹ کلچر نوجوانوں میں تنقیدی سوچ، آگاہی اور سیکھنے کے مواقع فراہم کر رہا ہے، خاص طور پر وہ پوڈکاسٹ جو سوشل ایشوز، تاریخ اور خود ترقی پر مبنی ہیں۔ لیکن کچھ پوڈکاسٹ صرف تفریح تک محدود ہیں اور نوجوانوں کو سنجیدہ موضوعات کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔

حمزہ قریشی نے کہا ہے کہ روایتی میڈیا خبروں اور رپورٹنگ پر توجہ دیتا ہے، جب کہ پوڈکاسٹ زیادہ غیر رسمی، تفصیلی اور ذاتی نوعیت کے مکالمے پر مبنی ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ پوڈکاسٹ زیادہ مؤثر ہو سکتا ہے کیونکہ یہ تفصیلی گفتگو کا موقع دیتا ہے، لیکن خبروں اور حقائق کی تصدیق کے لیے روایتی میڈیا ابھی بھی زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ پوڈکاسٹ انڈسٹری میں وائرل ہونے کا رجحان معیار کو متاثر کر رہا ہے، کیونکہ زیادہ تر میزبان سنسنی خیز اور متنازعہ موضوعات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، تاکہ زیادہ ناظرین حاصل کیے جا سکیں۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے معیاری اور تحقیقی مواد کو فروغ دینا ضروری ہے۔

دنیا بھرمیں 30 ستمبرکوپوڈ کاسٹ ڈے منایا جاتا ہے۔ (فوٹو: انسپلیش)

اس کے علاوہ پاکستان میں پوڈکاسٹ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے زیادہ اسپانسرشپ، معیاری پروڈکشن، اور تعلیمی و تحقیقی مواد پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ اگر میڈیا ادارے اور برانڈز پوڈکاسٹ کو سپورٹ کریں تو یہ ایک مستحکم انڈسٹری بن سکتی ہے۔

حمزہ قریشی نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر پوڈکاسٹ اظہارِ رائے کا ایک آزاد ذریعہ تھا، لیکن اب بہت سے پوڈکاسٹ اسپانسرشپ اور برانڈنگ کے باعث بزنس ماڈل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ کچھ آزاد پوڈکاسٹ اب بھی موجود ہیں، لیکن زیادہ تر مواد مالی فوائد کو مدنظر رکھ کر بنایا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا ریسرچر عائشہ ندیم نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ  پوڈکاسٹ کلچر نے نوجوانوں میں معلومات تک رسائی کو آسان بنا دیا ہے، لیکن زیادہ تر مواد صرف تفریحی نوعیت کا ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو تعمیری اور تحقیقی پوڈکاسٹ سننے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی سوچ میں حقیقی مثبت تبدیلی آسکے۔

عائشہ ندیم نےپوڈکاسٹ کلچر کے وائرل ہونے کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ روایتی میڈیا کے برعکس پوڈکاسٹ میں آزادی زیادہ ہے، جو اسے ایک منفرد اور مؤثر پلیٹ فارم بناتی ہے۔ یہ ان موضوعات پر بات چیت کا موقع دیتا ہے جو روایتی میڈیا نہیں دےپاتے، مگر اسے مکمل طور پر روایتی میڈیا کا متبادل سمجھنا غلط ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ وائرل کنٹینٹ کی دوڑ نے کئی پوڈکاسٹ کو صرف تفریح اور مزاح تک محدود کر دیا ہے، جس کی وجہ سے سنجیدہ اور معلوماتی مواد نظرانداز ہو رہا ہے۔ سامعین کو چاہیے کہ وہ معیار پر سمجھوتہ نہ کریں اور تحقیق پر مبنی پوڈکاسٹ کی حوصلہ افزائی کریں۔

میڈیا ریسرچر نے کہا ہے کہ پوڈکاسٹ اب بھی اظہارِ رائے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے، لیکن بزنس ماڈل میں تبدیل ہونے کی وجہ سے بہت سے میزبان مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر مجبور ہیں۔ سامعین کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار اور معیاری مواد کو ترجیح دیں تاکہ اصل مقصد برقرار رہ سکے۔

 

افضل بلال

افضل بلال

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس