امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ کے علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے اسے ‘مشرق وسطی کا ریویرہ’ بنانے کے منصوبے کا اعلان دنیا بھر میں غم و غصے اور مذمت کا باعث بنا ہے۔
دنیا بھر میں اس پر بیان کی شدید تنقید کی گئی ہے اور حکومتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی شہریوں کی طرف سے اس بات کی نشاندہی کی جا رہی ہے کہ اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جن میں جینیوا کنونشنز کی واضح خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جو کسی بھی شہری آبادی کو جبری طور پر بے دخل کرنے کو منع کرتی ہیں۔
نسلی صفائی کا یہ تصور جس کا ٹرمپ کے منصوبے میں عکس نظر آتا ہے جدید دنیا میں کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے، اور اس کے پیچھے ایک صدیوں پرانی نوآبادیاتی ذہنیت کا عمل دخل ہے۔
صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے منصوبے کی تاریخی جڑیں کئی سو سال پیچھے جا کر ملتی ہیں جب یورپی طاقتوں نے دنیا کے مختلف حصوں پر اپنا قبضہ جمانا شروع کیا تھا۔
اس دور میں مقامی لوگوں کے حقوق اور خودمختاری کو نظرانداز کرتے ہوئے غیر ملکی طاقتوں کے لئے زمین اور وسائل کا استحصال کرنا ایک معمول بن گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انڈیا کا پانچ سال بعد شرح سود میں کمی کا تاریخی فیصلہ
یہ ذہنیت 1479 میں ہونے والے ‘معاہدۂ الکاسووس، معاہدۂ ٹورڈسیلس’ اور بعد ازاں 1884 کے برلن کانفرنس تک پھیل گئی۔
برلن کانفرنس اس وقت ایک اہم موقع تھا جب یورپی طاقتوں نے افریقہ کے وسیع حصے کو آپس میں تقسیم کیا اور اسے اپنے مفادات کے لیے قابو کر لیا۔
اسی دوران مؤثر قبضے کے تصور کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا جس کے مطابق اگر کسی غیر ملکی طاقت کو کسی علاقے پر حکمرانی کرنے کی صلاحیت ہو تو اسے وہ علاقہ قابض ملک کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے، ٹرمپ کا غزہ کے بارے میں منصوبہ اسی نوآبادیاتی فکر کا عکاس ہے۔
امریکی صدر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ غزہ پر امریکی حکمرانی نافذ کر کے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے اور علاقے کی معیشت کو دوبارہ تعمیر کر کے ترقی اور خوشحالی لائے گا۔
یہ دعویٰ درحقیقت ایک ایسا نوآبادیاتی بیانیہ ہے جس میں مقامی لوگوں کے حقوق کو نظرانداز کرتے ہوئے غیر ملکی طاقتوں کو ترقی کا علمبردار بنا دیا گیا ہے۔
ٹرمپ کے مطابق وہ غزہ کو ایک بین الاقوامی تجارتی مرکز بنا کر اکانومک ترقی لائے گا جو کہ ایک ایسا تصور ہے جس کا مقصد علاقے کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنا اور مقامی فلسطینیوں کی خودمختاری کو ختم کرنا ہے۔
مزید پڑھیں: لاہور سے زیادہ بڑے رقبے کو تباہ کر سکنے والا سیارچہ زمین کی جانب بڑھ رہا ہے، کیا پریشان ہوا جائے؟
یہ خیال کہ غزہ کو ‘مشرق وسطی کا سنگاپور’ بنایا جائے گا جو اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کی طرف سے 2018 میں پیش کیا گیا تھا اس نوآبادیاتی سوچ کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
اس منصوبے کے مطابق غزہ کو ایک صنعتی بندرگاہ اور آزاد تجارتی زون میں تبدیل کرنے کی بات کی گئی تھی جہاں اسرائیل کا کنٹرول برقرار رہے گا۔
اس کے باوجود یہ منصوبہ فلسطینی خودمختاری کو ختم کرنے کی کوشش ہے اور اس میں مقامی لوگوں کے حقوق کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔
جیسا کہ افریقی ممالک اچھی طرح جانتے ہیں عالمی آزاد تجارت کے نظریات اکثر مقامی خودمختاری اور حقوق کی قربانی کے بدلے میں نافذ کیے جاتے ہیں۔
برلن کانفرنس کے نتیجے میں افریقہ میں جو تباہی آئی اس کی گونج آج بھی افریقی قوموں کے دلوں میں ہے۔
اس کے علاوہ کانگو فری اسٹیٹ کی مثال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نوآبادیاتی طاقتیں مقامی آبادیوں کے استحصال کے لیے ترقی اور خوشحالی کے دعوے کرتی تھیں، لیکن اس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت اور بدترین استحصال کا سامنا کرنا پڑا۔
اگرچہ تاریخ کو واپس نہیں پلٹایا جا سکتا لیکن اس سے سبق ضرور سیکھا جا سکتا ہے۔
افریقہ اس بات کا شاہد ہے کہ نوآبادیات کا سچ یہ نہیں تھا کہ ان ممالک میں خوشحالی آئی بلکہ یہ استحصال، ظلم اور موت کا دور تھا۔
ٹرمپ کے منصوبے کے خلاف عالمی سطح پر جو ردعمل آیا ہے وہ صرف ایک شخص کی پالیسی کی مذمت نہیں ہے بلکہ یہ ایک بڑے نوآبادیاتی ذہنیت کے خلاف ایک آواز ہے، جو آج بھی عالمی سیاست میں موجود ہے۔
افریقی ممالک کو اس تاریخ سے سبق لے کر ایک آواز میں کہنا ہوگا کہ ‘کبھی نہیں دوبارہ’ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ یا کسی بھی علاقے پر غیر ملکی قبضہ چاہے وہ کسی بھی نام یا جواز کے تحت ہو کبھی بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔
اس کے بجائے فلسطینیوں کا حق ہے کہ وہ اپنے علاقے میں خود حکمرانی کریں اور ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔
ضرور پڑھیں: انڈین تارکینِ وطن کے ساتھ امریکا کا امتیازی سلوک: ہاتھ پاؤں باندھ دیے