پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران ہے جو آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت ملک کی ایک بڑی آبادی بنیادی غذائی اجزا سے محروم ہے، جس کے نتیجے میں بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
نیوٹریشن انٹرنیشنل کی ایک حالیہ ورکشاپ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار انتہائی تشویش ناک ہیں۔ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہے اور اگر صورت ِحال یہی رہی تو آنے والے سالوں میں اس کے اثرات ناقابلِ واپسی ہو سکتے ہیں۔
“میرے بچے کی ہڈیاں نکل آئی ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں اچھی خوراک دو، پر کہاں سے لاؤں؟”
پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں رہنے والی شبانہ بی بی کا چھوٹا بیٹا کمزور ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔ “ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بچے کو دودھ، گوشت اور پھل دیں، مگر ہم تو دن میں ایک بار دال روٹی پوری کر لیں تو بڑی بات ہے۔”
یہ کہانی صرف شبانہ بی بی کی نہیں، بلکہ ملک کے لاکھوں والدین کی ہے جو اپنے بچوں کو متوازن خوراک دینے سے قاصر ہیں۔
پاکستان میں غذائی قلت کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق 34 فیصد بچے (پانچ سال سے کم عمر) پست قد کا شکار ہیں۔ 22% نومولود بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ 53% بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ 41% حاملہ خواتین آئرن کی کمی میں مبتلا ہیں، جس سے ان کے بچوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔

نیوٹریشن انٹرنیشنل، یونیسف، ورلڈ بینک، پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق غذائی قلت کے باعث پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ صرف خوراک کی کمی نہیں بلکہ غیر متوازن خوراک بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ملک میں زیادہ تر لوگ سادہ کاربوہائیڈریٹس (چاول، آٹا، چینی) پر گزارا کرتے ہیں، جب کہ پروٹین، وٹامنز اور منرلز کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ غذائیت ڈاکٹر زین نے کہا کہ یہ لوگ بھوکے نہیں، بلکہ غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر زین نے کہا ہے کہ ‘پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے اس لیے کمزور پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں کو دورانِ حمل مناسب خوراک نہیں ملتی۔ آئرن، کیلشیم اور وٹامن ڈی کی شدید کمی کے باعث مائیں بیمار پڑ جاتی ہیں اور بچے بہتر نشوونما نہیں کر پاتے۔”
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی بتول بی بی نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ حمل کے دوران انہیں کبھی گوشت، دودھ یا پھل کھانے کو نہیں ملے۔ گھر میں جو کھانے کو ہوتا، وہی انھیں کھانا پڑتا تھا۔ اب ان کا بیٹا کمزور پیدا ہوا ہے، وہ بیمار بھی بہت رہتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 41 فیصد حاملہ خواتین آئرن کی کمی کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں کم وزن بچوں کی پیدائش عام ہوتی جا رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف غذائی قلت کا معاملہ نہیں، یہ پورے معاشرتی نظام کی ناکامی ہے۔ بچوں کو اسکولوں میں صحت مند کھانے کا نظام دینا ہوگا، حاملہ خواتین کے لیے سپلیمنٹس کو سستا اور آسانی سے دستیاب بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم آنے والی نسلوں کو بچا نہیں سکتے۔ مزید یہ کہ غذائی قلت پاکستان کی معیشت کو بھی نگل رہی ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان غذائی قلت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق غذائی قلت کے شکار بچے بڑے ہو کر جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور رہتے ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ ایک پیداواری شہری کے طور پر معیشت میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر پاتے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں ہر سال لاکھوں ٹن گندم، چاول، دالیں اور دیگر غذائی اجناس پیدا ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت کا شکار کیوں ہے؟
ماہرین نے اس کی تین بڑی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی کے سبب معیاری اور متوازن خوراک عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا چکی ہے۔
غلط ترجیحات کی وجہ سے خوراک کی تقسیم اور غذائی اجزاء کی شمولیت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ مزید یہ کہ پاکستان میں 70 فیصد سے زائد پانی آلودہ ہے، جس کی وجہ سے بچوں میں اسہال اور دیگر بیماریاں عام ہو رہی ہیں، جو غذائی قلت کو مزید بڑھا رہی ہیں۔
پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران بن چکا ہے جو صرف غربت یا مہنگائی کی وجہ سے نہیں، بلکہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ بھی ہے۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی بڑی آبادی غذائی کمی کا شکار کیوں ہے؟

پاکستان میں ہر حکومت غذائی قلت پر بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ‘احساس نشوونما پروگرام’، ‘فوڈ سیکیورٹی پالیسی’ اور مختلف فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا گیا، لیکن یہ پروگرام یا تو بیوروکریسی کی نذر ہو گئے یا ناکافی ثابت ہوئے۔
ماہر خوراک ڈاکٹر زین کا کہنا ہے کہ حکومت غذائی قلت کے اعداد و شمار تو جمع کرتی ہے، لیکن ان پر عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بچوں کو متوازن خوراک دینے کے بجائے حکومتی سطح پر سبسڈی کم کی جا رہی ہے، جس سے صحت مند خوراک مزید مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔
ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسی تباہی لا سکتی ہے جس کا اثر دہائیوں تک محسوس کیا جائے گا۔
یہ بحران پانی کی کمی، غربت اور مہنگائی سے جڑا ہوا ہے۔ اگر حکومت نے صحت مند خوراک کو سستا اور آسانی سے دستیاب نہ کیا، تو پاکستان میں آنے والی نسلیں مزید کمزور ہوں گی اور ہم ایک صحت مند قوم بنانے کے خواب کو کھو دیں گے۔”
پاکستان کو بھوک کے خلاف نہیں، بلکہ غذائی کمی کے خلاف جنگ لڑنے کی ضرورت ہے، اور اس جنگ میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔