اپریل 9, 2025 12:22 صبح

English / Urdu

Follw Us on:

پسند کے ہمسفر کی تلاش میں بوڑھے ہوتے نوجوان

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
پاکستان میں شادی کے حوالے سے معاشرتی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ (فوٹو: سوشل نیوز)

پاکستان میں آج کے نوجوان اپنی پسندیدہ زندگی کے ساتھی کو تلاش کرنے میں اتنے بے چین ہیں کہ عمر کے ایک مخصوص حصے میں پہنچ کر بھی ان کی شادی نہیں ہو پاتی۔

نوجوانوں کے لیے شادی ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس میں ایک طرف معاشرتی دباؤ، مذہبی مسائل اور والدین کی مداخلت رکاوٹ بنتے ہیں، تو دوسری طرف جہیز کے مطالبات اور اقتصادی مشکلات بھی اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں۔

کیا موجودہ معاشی اور سماجی حالات کے پیش نظر نوجوانوں کی شادی میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ سماجی تعلیم کی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ افتخار نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نوجوانوں کی شادی میں حائل رکاوٹوں اور ان کے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ “نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے سادہ شادیوں کو فروغ دینا اور جہیز جیسی غیر ضروری روایات کا خاتمہ ضروری ہے۔ حکومت کو روزگار کے مواقع بڑھانے اور شادی کے اخراجات میں معاونت کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔”

پاکستان میں نوجوانوں کی شادی کے معاملے پر فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ والدین روایات کے مطابق اپنے بچوں کے لیے شریک حیات کا انتخاب کرتے ہیں، جبکہ نوجوان اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔

ماہر عمرانیات ڈاکٹر حسان علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے روایات اور نوجوانوں کی ذاتی پسند سے متعلق کہا کہ “والدین اور نوجوانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کھلی گفتگو اور باہمی اعتماد ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی پسند کو سمجھیں جبکہ نوجوان روایات اور خاندانی اقدار کا احترام کریں تاکہ ایک متوازن فیصلہ ممکن ہو سکے۔”

اس کشمکش میں والدین کی مداخلت اہم ہے لیکن ساتھ ہی نوجوانوں کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ معاشی مسائل اور جہیز کا مطالبہ ان رکاوٹوں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

ان سب عوامل کا اثر نوجوانوں کی زندگیوں پر کس طرح پڑ رہا ہے؟ بہت سے نوجوان اپنی زندگی کے درمیانی حصے میں پہنچ کر بھی ازدواجی زندگی کی طرف قدم نہیں بڑھا پاتے، اور یہ صورتحال مسلسل پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔

پاکستان میں نوجوانوں کی شادی کے معاملے پر فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ (فوٹو: ریلیشنز فائنڈرز)

ڈاکٹر عائشہ افتخار کے نزدیک “معاشی عدم استحکام اور مہنگائی کے باعث نوجوانوں کے لیے شادی کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس پر جہیز کے غیر ضروری مطالبات مزید دباؤ ڈال دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی میں تاخیر پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے سماجی رویوں میں تبدیلی اور سادگی کو فروغ دینا ضروری ہے۔”

پاکستان میں شادی کے حوالے سے معاشرتی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ والدین اور خاندان کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکا یا لڑکی اپنے خاندان کی عزت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک روایتی طریقے سے شادی کرے۔ اس کے باوجود نوجوان اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن معاشرتی اور ثقافتی روایات کی وجہ سے اکثر ان کے انتخاب کو خاندان کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں والدین کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے اکثر نوجوان اپنے والدین کے منتخب کردہ شریک حیات کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ ان کی ذاتی پسند کے برعکس ہو سکتی ہے۔ یہ دباؤ ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور انہیں اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں الجھن میں مبتلا کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ افتخار کا کہنا ہے کہ “پاکستانی معاشرے میں خاندانی نظام اور ثقافتی روایات کا گہرا اثر ہے جس کی وجہ سے والدین اکثر اپنی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں۔ پسند کی شادی کو خاندانی وقار اور روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے مخالفت جنم لیتی ہے۔ اس رویے میں تبدیلی کے لیے مکالمے اور شعور کی بیداری ضروری ہے۔”

مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام میں پسند کی شادی کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس میں شرعی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ نوجوانوں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنے شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت دین داری، اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھیں۔ تاہم معاشرتی روایات اور خاندان کی طرف سے شرعی حدود کی صحیح رہنمائی کا فقدان نوجوانوں کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے۔

معاشی مشکلات بھی اس مسئلے میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ مالی دباؤ شادی کے عمل کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔

ڈاکٹر حسان علی کا کہنا ہے کہ “اسلام میں نکاح کو آسان بنانے پر زور دیا گیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں معاشی مسائل اور غیر ضروری رسومات نے شادی کو مشکل بنا دیا ہے۔ مہنگائی، روزگار کی کمی، اور جہیز جیسی روایات نوجوانوں کے لیے مشکلات کھڑی کرتی ہیں۔ دوسری جانب اسلام سادگی اور برابری پر مبنی نکاح کا درس دیتا ہے۔”

جہیز کا مسئلہ اس سارے معاملات کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ جہیز کی بڑھتی ہوئی مانگ نے نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ والدین کی طرف سے بڑی رقم، زیورات، اور گاڑی کا تقاضا کیا جاتا ہے، جو اکثر خاندانوں کے لیے مالی طور پر ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کئی لڑکے اور لڑکیاں اپنی پسند کی شادی مؤخر کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال نے ازدواجی زندگی کے آغاز کو ہی مشکل بنا دیا ہے۔

اس پورے معاملے میں بہت سے عوامل شامل ہیں جیسے معاشرتی توقعات، والدین کا دباؤ، اور اقتصادی مشکلات وہ مسائل ہیں جو نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

ڈاکٹر حسان علی کے مطابق “ہمارے معاشرے میں والدین کی اعلیٰ توقعات، مالی دباؤ اور مثالی رشتہ تلاش کرنے کی کوشش شادی میں تاخیر کا باعث بنتی ہے۔ اس مسئلے کا حل سادگی کو فروغ دینا، جہیز کی حوصلہ شکنی کرنا، اور نوجوانوں کو معاشی طور پر خودمختار بنانے میں مدد دینا ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔”

اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ افتخار کا کہنا ہے کہ “ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ جہیز کی لعنت کا خاتمہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ شادی ایک خوبصورت اور خوشگوار تجربہ بنے نہ کہ مالی اور جذباتی دباؤ کا شکار بنے۔ نوجوانوں کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اس اہم فیصلے کو خوشی اور سکون کے ساتھ کر سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچے میں تبدیلیاں لائیں۔”

پاکستان میں نوجوانوں کی شادی کے مسائل کے حل کے لیے معاشرتی، اقتصادی اور ثقافتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو اپنی پسند کے ہمسفر کے انتخاب میں آزادی دینی چاہیے، اور ساتھ ہی ہمیں جہیز کے مطالبات کو ختم کرنے کی طرف بھی قدم بڑھانا ہوگا۔

ڈاکٹر حسان علی کے نزدیک “نوجوانوں کو اپنی پسند کے ہمسفر کے انتخاب کی آزادی دینا ان کی ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے ضروری ہے۔ جب وہ اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں تو رشتے میں ہم آہنگی اور ذمہ داری کا احساس زیادہ ہوتا ہے جو ایک خوشگوار اور مستحکم ازدواجی زندگی کی بنیاد رکھتا ہے۔”

دوسری جانب ڈاکٹر عائشہ افتخار کا کہنا ہے کہ “جہیز کے مطالبات کے خاتمے کے لیے سخت قانونی اقدامات اور عوامی شعور بیدار کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہ نہ صرف معاشی ناانصافی کو بڑھاتا ہے بلکہ کئی گھروں میں بیٹیوں کی شادی میں غیر ضروری تاخیر اور دباؤ کا باعث بھی بنتا ہے۔ معاشرے کو اس فرسودہ روایت کے خلاف اجتماعی مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔”

اگر یہ سارے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو نہ صرف نوجوانوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار ہو گی، بلکہ ہمارا معاشرہ بھی ایک مثبت سمت میں ترقی کرے گا۔ اس طرح پاکستانی معاشرہ اپنے نوجوانوں کی خوشی اور سکون کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بہتر اور مستحکم مستقبل کی جانب بڑھ سکتا ہے۔

ڈاکٹر حسان علی کے نزدیک “پاکستانی معاشرے کو نوجوانوں کی خوشی اور سکون کو یقینی بنانے کے لیے روایتی دباؤ کو کم کرنا ہوگا اور ان کی رائے کو اہمیت دینی ہوگی۔ والدین اور نوجوانوں کے درمیان کھلا مکالمہ، تعلیمی اور معاشی مواقع میں اضافہ، اور شادی جیسے اہم فیصلوں میں باہمی اتفاق ایک مستحکم مستقبل کی جانب مثبت قدم ثابت ہو سکتے ہیں۔”

پاکستانی معاشرے میں شادی سے جڑے مسائل جیسے والدین کا دباؤ، جہیز کی روایت، معاشی مشکلات اور روایتی رکاوٹیں نوجوانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ والدین اور نوجوانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے، سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جائے، اور عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ شادی ایک مشکل نہیں بلکہ خوشگوار بندھن ثابت ہو۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم روایات اور جدید تقاضوں کے درمیان توازن قائم کریں اور نوجوانوں کو ان کی خوشیوں کے مطابق زندگی گزارنے کا موقع دیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس