26ویں آئینی ترمیم کے خلاف وکلاء کی ملک گیر تحریک آج اسلام آباد میں شدت اختیار کر گئی۔ وکلاء نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس پر پولیس سے شدید تصادم ہوا۔ سرینا چوک پر پولیس اور وکلاء میں ہاتھا پائی، دھکم پیل اور نعرے بازی دیکھنے میں آئی، جبکہ پولیس نے ریڈ زون کی سیکیورٹی مزید سخت کر دی۔
وکلاء کے احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ ریڈ زون مکمل سیل، پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ریڈ زون کے تمام داخلی راستوں پر کنٹینرز لگا کر راستے بند کر دیے گئے۔
علاوہ ازیں وفاقی دارالحکومت میں موبائل سروس معطل کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ سرینا چوک پر وکلاء اور پولیس میں تصادم ہوا ہے جبکہ وکلاء ریڈ زون میں داخلے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوپہر کے وقت وکلاء کی بڑی تعداد نے سرینا چوک کا رخ کیا اور ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ وکلاء کی کوشش تھی کہ وہ شاہراہ دستور تک پہنچ سکیں، جہاں وہ دھرنا دینا چاہتے تھے۔ تاہم، پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا ہے جس پر تصادم ہوا۔
وکلاء نے پولیس بیریئرز ہٹانے کی کوشش کی۔ پولیس نے وکلاء کو پیچھے دھکیلنے کے لیے لاٹھی چارج کیا۔ اس موقع پر شدید نعرے بازی ہوئی، وکلاء ‘آئین کی بالادستی’ کے حق میں نعرے لگا رہے۔ پولیس اور وکلاء میں دھکم پیل اور ہاتھا پائی ہوئی۔
وکلاء کے مطالبات ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر 16 رکنی فل کورٹ سماعت کرے اور عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کیا جائے تاکہ شفافیت برقرار رہے۔

وکلاء کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ جب تک 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلہ نہیں آتا، کسی بھی جج کی تقرری نہ کی جائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج کو چیف جسٹس بنایا جائے۔
مزید براں وکلاء کا مطالبہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس منسوخ کیا جائے۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کا انعقاد عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔
علاوہ ازیں وکلاء نے پیکا ایکٹ میں حالیہ ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے آزادی صحافت کی حمایت کی۔ وکلاء کا دعویٰ ہے کہ سیکرٹری سپریم کورٹ بار سلمان منصور کو 26ویں ترمیم کی مخالفت کرنے پر غیر قانونی طور پر معطل کیا گیا۔
وکلاء رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ تحریک صرف 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی کے لیے ہے۔ سینیئر وکیل حامد خان نے کہا کہ “یہ تحریک 26ویں ترمیم کو بہا لے جائے گی۔ ہم آئین کے تحفظ کے لیے کھڑے ہیں اور پیچھے نہیں ہٹیں گے۔”
سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار ربیعہ باجوہ نے کہا کہ “وکلاء کا ایک دھڑا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جبکہ دوسرا آئین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم انصاف کے لیے لڑیں گے۔”
دوسری جانب پولیس نے واضح کیا ہے کہ کسی کو بھی غیر قانونی طور پر ریڈ زون میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے وکلاء کو مذاکرات کی دعوت دی ہے، تاہم وکلاء نے ابھی تک کسی مذاکراتی عمل میں شمولیت کا عندیہ نہیں دیا۔
خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل پر وکلاء برادری نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا تھا۔ وکلاء کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے اور ججوں کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر کیا وکلاء تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟ یہ احتجاج عدلیہ اور حکومت کے درمیان جاری کشمکش کو مزید شدت دے سکتا ہے۔ اگر وکلاء تحریک کو عوامی اور سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو گئی تو یہ ایک بڑی آئینی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف، اگر حکومت مذاکرات کے ذریعے معاملے کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئی تو یہ بحران جلد حل ہو سکتا ہے۔