Follw Us on:

سماجی بحران، تیزی سے ترقی کرتی چینی معیشت کی راہ میں رکاوٹ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
چین میں سماجی بحران معیشت کی ترقی میں رکاوٹ بن رہا ہے(فائل فوٹو: گوگل)

دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک چین اس وقت سنگین سماجی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ جس کے اثرات اس کے اندرونی معاشرتی ڈھانچے پر مرتب ہو رہے ہیں۔

گزشتہ برس چین میں نئی شادیوں کی تعداد میں تاریخی کمی واقع ہوئی اور طلاقوں کی شرح میں بھی معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ یہ صورتحال چینی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے جو ملک کی کم ہوتی آبادی اور معاشی ترقی کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

چینی وزارت برائے شہری امور کے مطابق 2024 میں صرف 61 لاکھ جوڑوں نے اپنی شادیوں کا اندراج کرایا جو پچھلے سال کے مقابلے میں 20.5 فیصد کم ہے۔ یہ اعداد و شمار 1986 میں اعداد و شمار کے جاری ہونے کے بعد سے سب سے کم ہیں۔ وزیر شہری امور کے مطابق اس کمی کا بنیادی سبب بڑھتی ہوئی اقتصادی مشکلات اور نوجوانوں میں شادی کرنے کا رجحان کم ہونا ہے۔

یہ کمی چین کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے کیونکہ حکومت نے طویل عرصے سے آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مختلف حکومتی پالیسیوں کا اطلاق کیا ہے۔ جن میں شادی کی ترغیب دینا اور بچوں کی پیدائش کو بڑھاوا دینا شامل ہے۔ لیکن ان پالیسیوں کے باوجود چین میں نوجوانوں کی شادی کے بارے میں رجحانات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ حکومت کے لیے ایک پریشان کن حقیقت بن چکی ہے۔

گزشتہ برس چین میں طلاق کی شرح میں معمولی اضافہ بھی دیکھا گیا۔ تقریبا 26 لاکھ جوڑوں نے طلاق کے لیے درخواست دی۔ جو پچھلے سال کے مقابلے میں 28 ہزار زیادہ ہے۔ اس اضافہ کی ایک وجہ حکومتی پالیسی ہے جس کے تحت 2021 میں طلاق کی درخواست دینے والوں کے لیے 30 دن کی ‘کولنگ آف’ مدت مقرر کی گئی تھی جس کا مقصد طلاق کے فیصلے کو سوچ سمجھ کر کرنا تھا۔

اس پالیسی پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کیونکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے خواتین کے لیے بدسلوکی کرنے والی یا ٹوٹی ہوئی شادیوں کو چھوڑنا مشکل ہو گیا ہے۔

چین کی آبادی مسلسل کم ہورہی ہے۔ (فائل فوٹو: گوگل)

چین کی آبادی مسلسل کم ہورہی ہے۔ یہ صورت حال حکومت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ 2024 میں 16 سے 59 سال کے درمیان کام کرنے والی افراد کی تعداد میں 6.83 ملین کی کمی واقع ہوئی، جو ملک کی معیشت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ دوسری جانب 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت یہ افراد کل آبادی کا 22 فیصد ہیں۔

چینی حکام نے اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے مالی ترغیبات فراہم کرنے، اجتماعی شادیوں کے انعقاد اور ‘دلہن کی قیمت’ جیسے روایات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ غریب مردوں کے لیے شادی کرنا آسان ہو سکے۔

چینی نوجوانوں میں شادی سے متعلق رویے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر خواتین جو زیادہ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر خود مختار ہو رہی ہیں وہ شادی کے روایتی تصورات سے منحرف ہو رہی ہیں۔ انہیں کام کی جگہ پر امتیازی سلوک اور بچوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے روایتی ذمہ داریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی خواتین شادی کرنے سے گریز کر رہی ہیں۔

چین میں سوشل میڈیا پر اس بات پر بھی تبصرے کیے گئے ہیں کہ ‘زندگی اتنی تھکا دینے والی ہے، شادی کرنے کی ہمت کیسے ہو سکتی ہے؟ چین میں شادیوں اور بچوں کی پیدائش میں کمی کا ایک اور سبب اس کے طویل عرصے تک اپنائی گئی آبادی کی محدودیت کی پالیسی بھی ہے۔

2015 میں چین نے اپنے ایک بچے کی پالیسی کو ختم کیا اور دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی، اسی طرح 2021 میں اس پالیسی کو تین بچوں تک بڑھا دیا گیا۔ اس کے باوجود شادیوں اور پیدائشوں میں کمی جاری رہی۔ اس صورتحال سے چینی حکومت کی کارگردگی اور خاص کر پالیسیوں پر شدید تنقید کی جارہی ہے کہ حکومت صرف معاشی بحالی پر ہی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور معاشرتی ترقی عدم توجہی کا شکار ہو رہی ہے۔

چین میں شادیوں اور بچوں کی پیدائش میں کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو ملک کی مستقبل کی اقتصادی اور سماجی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ حکومتی اقدامات سے چینی نوجوانوں کے لیے شادی اور بچوں کی پیدائش بارے رائے میں کچھ تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اس معاملےکو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

خیال رہے کہ چین میں بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ، سماجی مسائل اور شادی کے بارے میں بدلتے ہوئے رویے اسے ایک نیا چیلنج بنا رہے ہیں جس کا حل تلاش کرنا اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ اگر اس مسئلے کا حل تلاش نہ کیا گیا تو یہ مستقبل میں دنیا کی ایک بڑی معیشت کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس