اپریل 11, 2025 5:22 صبح

English / Urdu

Follw Us on:

سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی شمولیت کیوں ضروری ہے؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

اس وقت پوری دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی جنگ چل رہی ہے، ہر ملک کی خواہش ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنا لوہا منوائے، یہی وجہ ہے کہ امریکا کہ چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی تول بنانے کے محض ایک سال بعد ہی چائنہ نے امریکا کی نسبت کئی گنا سستا اور معیاری ڈیپ سیک بنا کر عالمی دنیا میں اپنی برتری ظاہر کر دی ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی  کے بغیر کسی ملک کی ترقی کا تصور ممکن نہیں، جس کی وجہ سے ایک  سوال جنم لیتا  ہے کہ کیا خواتین کو اس شعبے میں مردوں کے مساوی مواقع حاصل ہیں؟

عالمی سطح پر تو خواتین سائنسدانوں نے بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اپنا لوہا منوا چکی ہیں، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ شعبہ اب بھی مردوں کا غلبہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین ہر میدان میں کافی پیچھے ہیں، جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی ہونا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کاکردار ماضی میں بھی رہا ہے، کئی خواتین سائنسدانوں نے کامیابیاں سمیٹیں اور دنیا کو بتا دیا کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں،  جن میں ماری کیوری، روزالینڈ فرینکلن اور ایڈا لاولیس سرِفہرست ہیں، مگر کیا آج کے جدید دور میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کے پاس بنیادی حقوق ہیں؟

اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں سائنسی تحقیق میں کام کرنے والے افراد میں صرف 30 فیصد خواتین شامل ہیں۔

واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں  خواتین کے لیے حالات بہتر ہو رہے ہیں اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں، مگر ترقی پذیر ممالک خاص کر پاکستان جیسے ملک میں خواتین کی بنیادی تعلیم میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔

حالیہ کچھ عرصے میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ پاکستان میں خواتین کی بڑی تعداد میڈیکل اور بائیولوجیکل سائنسز میں دلچسپی رکھتی ہے، لیکن انجینئرنگ، فزکس اور دیگر سائنسی شعبوں میں ان کی نمائندگی کم ہے۔

نرگس ماولوالا نے طبیعیات کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھا ئی ہے۔(فوٹو: ڈان)

بہت سی نوجوان پاکستانی خواتین سائنسی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں، لیکن انہیں عملی میدان میں کئی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کی زیادہ شمولیت سے نہ صرف معیشت بہتر ہو سکتی ہے، بلکہ صحت، ماحولیات اور دیگر شعبوں میں بھی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آئی ٹی ایکسپرٹ رابعہ وقار نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے لیے آئی ٹی فری لانسنگ، ایس ٹی ای ایم اسکالرشپس، حکومتی و نجی انیشیٹوز، ٹیک ہبز اور انکیوبیٹرز جیسے مواقع موجود ہیں۔ مگر خواتین کی راہ میں سماجی رویے میں تبدیلی، صنفی تعصب، محدود لیڈرشپ مواقع اور فیلڈ ورک میں مشکلات جیسی رکاوٹیں حائل ہیں۔

آئی ٹی ماہر پروفیسر عائشہ جاوید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہےکہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں خواتین کی شمولیت انتہائی ضروری ہے۔ حکومت نئے ٹیکنالوجی پارکس اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے خواتین کو شامل کر رہی ہے تاکہ وہ ملکی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔

پاکستان میں سائنس کے شعبے میں خواتین کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، بہت سے والدین سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں لڑکیوں کے کیریئر کو غیر روایتی سمجھتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں بچیوں کو سائنسی تعلیم کے کم مواقع ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ مردوں کے مقابلے میں  خواتین کو تحقیق کے مواقع  کم ملتے ہیں۔

رابعہ وقار نے کہا ہے کہ سائنسی میدان میں خواتین کی کم نمائندگی کی وجوہات میں ثقافتی دباؤ، معاشرے میں کم  رول ماڈلز کا ہونا، ایس ٹی ای ایم تعلیم میں کم شمولیت، ورک لائف بیلنس  جیسی مشکلات کا ہونا ہے۔

رابعہ وقار کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی  کے شعبے میں ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اسکول لیول پر ایس ٹی ای ایم کی ترویج کی جائے، خواتین سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی، جینڈر انکلوژن پالیسیز اور فلیکسیبل ورک ماڈلز اپنائے جائیں۔

بہت سے والدین سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں لڑکیوں کے کیریئر کو غیر روایتی سمجھتے ہیں۔ (فوٹو: دی ایکسپریس ٹریبیون)

پروفیسر عائشہ جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی تعلیم، صحت اور جدید معیشت میں شرکت کے مواقع بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت بھی اہم ہے، کیونکہ زیادہ تر تعلیمی ادارے نجی شعبے کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔

رابعہ وقار نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ حکومت اور نجی ادارے خواتین کو سائنسی تحقیق اور جدت کی طرف راغب کرنے کے لیے کچھ حد تک مناسب اقدامات کر رہے ہیں، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ لڑکیوں کے لیے سائنسی تعلیم کے مواقع کو بڑھایا جائے،  خواتین کے لیے خصوصی تحقیقی پروگرام متعارف کرائے جائیں، خواتین کو سٹارٹ اپس اور انٹرپرینیورشپ میں شامل ہونے کے لیے سپورٹ دی جائے، مزید یہ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں خواتین کے لیے مزید اسکالرشپس اور خصوصی وظائف متعارف کرائے جائیں تاکہ وہ تحقیق میں آگے بڑھ سکیں۔

باقی دنیا کی طرح پاکستان نے بھی متعدد سائنسدان خواتین پیدا کی ہیں، جنھوں نے عالمی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے، ان میں سب سے پہلا نام فیصل آباد کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والی ارفع عبدالکریم رندھاوا کا آتا ہے، جس نے محض 14 برس کی عمر میں سب سے کم عمر مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

دوسرا نام ڈاکٹر نرگس ماولوالا  کا آتا ہے، جنھوں نے طبیعیات کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھا ئی ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر تسنیم زہرا حسین کو پاکستان کی پہلی خاتون تھیوریٹیکل فزسسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

پروفیسر عائشہ جاوید نے کہا ہے کہ پاکستان میں 43 آئی ٹی پارکس میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ نئے پروگرامز کے ذریعے خواتین کو فری لانسنگ اور سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ میں تربیت دی جا رہی ہے۔

پاکستان میں 250 ای ایمپلیمینٹ سینٹرز اور مزید سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس بنانے کا منصوبہ ہے۔ (فوٹو: ٹیک جوس)

رابعہ وقار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو خواتین سائنسدانوں کے لیے ریسرچ فنڈنگ، لیڈرشپ مواقع  اور عملی تربیت کے پروگرامز متعارف کرانے چاہئیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب خواتین کی مثالیں دکھا کر حوصلہ افزائی کی جا ئے، تاکہ پاکستان بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کا مقابلہ کرے۔

آئی ٹی ایکسپرٹ عائشہ جاوید نے بتایا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں خواتین کی کامیابیوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے، لیکن مزید پالیسی اقدامات اور شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں 250 ای ایمپلیمینٹ سینٹرز اور مزید سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس بنانے کا منصوبہ ہے تاکہ خواتین کو ڈیجیٹل معیشت میں بہتر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

خیال رہے کہ اگر پاکستان کو جدید دور کے مسائل سے نمٹنا ہے اور عالمی دنیا میں اپنی پہچان بنانی ہے، تو ضروری ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کی شمولیت کو بڑھایا جائے۔ حکومت، تعلیمی اداروں اور نجی شعبے کو مل کر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو خواتین کو سائنس میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کریں۔

اگر خواتین کو مناسب مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ سائنسی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، جو نہ صرف ملک کی معیشت بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی بہتر بنائے گا۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ، بلکہ وسائل اور نگہداشت کی ضرورت ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس