چین کی فوج نے امریکا پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے تائیوان اسٹریٹ میں اپنی نیول پیٹرولنگ کے ذریعے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔
اس بات کا اعلان چینی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کی جانب سے کیا گیا جس نے دو امریکی جنگی جہازوں کی تائیوان اسٹریٹ میں موجودگی کی سختی سے مذمت کی۔
امریکی نیوی کے مطابق یہ پیٹرول ایک معمولی فوجی مشق تھی تاہم چین کے لیے یہ ایک خطرے کی علامت بن گئی ہے۔
چین کی فوج نے کہا کہ انہوں نے USS رالف جانسن، جو کہ ایک نیول ڈسٹرائر ہے اور USNS باؤڈچ، جو کہ ایک سروے جہاز ہے اس کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی تھی۔
یہ دونوں امریکی جہاز پیر سے بدھ تک تائیوان اسٹریٹ سے گزرے تھے جو کہ بین الاقوامی آبی راستہ ہے۔

(فائل فوٹو/ گوگل)
چینی فوج کے مشرقی تھیٹر کمانڈ کے ترجمان کرنل ‘لی ژی’ نے کہا “امریکی اقدامات نے غلط پیغام بھیجا ہے اور اس سے سیکیورٹی خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ چینی فوج اس علاقے میں ہمیشہ چوکس رہتی ہے اور اپنے قومی خودمختاری، سیکیورٹی اور علاقائی امن کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے۔
چین کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اسٹریٹ اس کے زیرِ تسلط ہے اور وہ کسی بھی بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔
چین کا موقف ہے کہ یہ علاقہ اس کی ‘مذہبی خودمختاری’ کا حصہ ہے اور وہ اسے کسی بھی صورت میں نہیں چھوڑے گا۔
مزید پڑھیں: “اگر ہفتے تک یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو غزہ میں جنگ بندی ختم ہو جائے گی”:اسرائیلی وزیر اعظم کی دھمکی
چین کی تائیوان امور کی دفتر کی ترجمان ژو فنگلیان نے کہا کہ “ہم کسی بھی بیرونی مداخلت کے خلاف مضبوط موقف رکھتے ہیں اور ہمارے پاس اپنے ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرنے کی مکمل صلاحیت اور اعتماد ہے۔”

(فائل فوٹو/تائی-پے-ٹائمز)
دوسری جانب امریکی نیوی نے اس پیٹرول کو ایک معمولی مشق قرار دیا ہے۔
امریکی فوج کے ترجمان میتھیو کومر نے کہا “یہ پیٹرول تائیوان اسٹریٹ کے اس کوریڈور میں کیا گیا جو کسی بھی ساحلی ریاست کے سمندری حدود سے باہر ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اس کوریڈور میں تمام ممالک کو سمندری آزادی کا حق حاصل ہے جس کے تحت وہ آزادانہ نقل و حرکت، پرواز اور سمندری راستوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔
امریکا نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ پیٹرولنگ امریکا کی آزادی اور عالمی آبی راستوں کے تحفظ کے لیے ایک معمولی مشق کا حصہ ہے۔
امریکی نیوی کے مطابق اس طرح کی مشقیں اکثر کی جاتی ہیں اور یہ تائیوان اسٹریٹ میں آزادی کی مشقوں کا حصہ ہیں۔

(فائل فوٹؤ/گوگل)
چین کے لیے یہ بات کوئی معمولی نہیں ہے، کیونکہ تائیوان اسٹریٹ میں امریکی نیول پیٹرول کی موجودگی کو وہ اپنے خودمختاری کے لیے ایک دھچکا سمجھتا ہے۔
چینی فوج کے مطابق اس نوعیت کے اقدامات نہ صرف چین کے لیے، بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے کی گھنٹی بن سکتے ہیں۔
چین کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ “ہم اپنی سرحدوں اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہمیشہ تیار ہیں اور کسی بھی ممکنہ خطرے کا جواب دینے کے لیے پوری طرح سے چوکس ہیں۔”
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی کسی محفوظ مقام پر جاکر رہیں، ٹرمپ کی اردنی بادشاہ سے ملاقات
چین نے تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ قرار دے رکھا ہے اور وہ اس پر مکمل خودمختاری کا دعویٰ کرتا ہے۔
دوسری جانب امریکا تائیوان کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد فراہم کرتا ہے جس سے چین کی فوجی سرگرمیاں اور بڑھ گئی ہیں۔
چین نے تائیوان کے قریب اپنے فضائی اور نیول مشقوں کو بڑھا دیا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔
ان مشقوں میں ‘گرے زون’ حکمت عملی اپنائی گئی ہے، جس کا مقصد تائیوان کو دباؤ میں لانا اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو جانچنا ہے۔

(فائل فوٹؤ/ گوگل)
چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ 2047 تک تائیوان کو اپنے قبضے میں لے لے گا چاہے وہ طاقت کا استعمال کرے یا امن سے۔ اس کے باوجود، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی تائیوان میں دلچسپی اور دفاعی امداد چین کے لیے ایک مسلسل چیلنج بنی ہوئی ہے۔
اس وقت صورتحال کشیدہ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تصادم کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
اگرچہ چین نے اپنی فوجی تیاریوں کو مزید تیز کر دیا ہے تاہم امریکا نے بھی اپنی نیول موجودگی کو بڑھانے کی کوشش کی ہے تاکہ عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھ سکے۔
یہ تنازعہ نہ صرف چین اور امریکا کے تعلقات کو متاثر کر رہا ہے بلکہ پورے خطے کی سیکیورٹی صورتحال کو بھی پیچیدہ بنا رہا ہے۔ تائیوان اسٹریٹ میں جاری اس کشیدگی نے عالمی برادری کی نظریں مشرقی ایشیا پر مرکوز کر دی ہیں، جہاں امن اور استحکام کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
لازمی پڑھیں: امریکا کی غزہ کو’جہنم بنانے‘ کی دھمکی، قیدی رہا نہ کیے گئے تو جنگ بندی ختم کرنے کا کہوں گا: ٹرمپ