مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور غزہ کی تعمیر نو کے اپنے منصوبے کو دوگنا کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ کو خریدنے نہیں جا رہے، بلکہ غزہ امریکا کے تحت ہوگا۔ تاہم، اردن کے شاہ عبداللہ نے اس منصوبے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔
ماضی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اردن کے بادشاہ عبد اللہ دوم کے درمیان تعلقات مضبوط اور دوستانہ رہے ہیں لیکن حالیہ ملاقات نے دونوں ممالک کے درمیان ایک نیا تنازعہ جنم لیا ہے۔
یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب ٹرمپ نے اپنی متنازعہ تجویز کو دہرایا، جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھالے گا اور وہاں سے فلسطینیوں کو اردن اور مصر کی طرف منتقل کیا جائے گا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ہم غزہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیں گے اور وہاں ملازمتوں کا ایسا موقع پیدا کریں گے کہ مشرق وسطیٰ میں استحکام کا آغاز ہو جائے گا۔”

(فائل فوٹو/ گوگل)
ان کا یہ بیان نہ صرف فلسطینیوں کے لیے ایک دھچکا تھا بلکہ اردن اور مصر کے لیے بھی ایک نیا چیلنج تھا جو ایسی کسی بھی بے دخلی کی مخالفت کر چکے ہیں۔
اوول آفس میں ہونے والی اس ملاقات میں ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ غزہ کو مکمل طور پر ‘اپنا’ بنا لے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ہم غزہ سنبھالیں گے، ہم اس کا خیال رکھیں گے اور اس علاقے میں استحکام لائیں گے۔”
اس کا یہ بیان غیر معمولی تھا کیوں کہ اس میں نہ صرف غزہ کے باشندوں کو وہاں سے نکالنے کی بات کی گئی بلکہ انہیں اردن اور مصر کی طرف منتقل کرنے کی بھی دھمکی دی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: دولت سمیٹنے کی دوڑ، ایلن مسک اور آلٹ مین آمنے سامنے
ٹرمپ کا خیال ہے کہ غزہ کو ایک نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا، جس میں ہوٹلز، دفاتر اور ایک خوبصورت ریویرہ کی طرح کا ماحول ہوگا۔
تاہم ان کا یہ منصوبہ فلسطینیوں کی زمین سے جڑی محبت اور قومی شناخت کو نظر انداز کرتا ہے جو ان کے لیے صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ ایک تاریخی اور جذباتی اہمیت رکھتا ہے۔
اس ملاقات میں اردن کے بادشاہ عبد اللہ دوم نے انتہائی محتاط اور سفارتی زبان استعمال کی اور ٹرمپ کے منصوبے کو کھلے طور پر مسترد نہیں کیا، لیکن اپنے موقف کو واضح ضرور کردیا۔
بادشاہ عبد اللہ نے کہا کہ “اردن فلسطینیوں کے غزہ اور مغربی کنارے سے بے دخلی کے خلاف ہے اور عرب ممالک جلد ہی غزہ کے مسئلے کے حل کے لیے اپنا منصوبہ پیش کریں گے۔”
انہوں نے ٹرمپ کی تعریف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ “اب مجھے ایسا شخص نظر آ رہا ہے جو ہمیں خطے میں استحکام، امن اور خوشحالی کے راستے پر لے جا سکتا ہے۔”
تاہم، ان کی اس بات میں محتاط انداز سے ٹرمپ کے منصوبے کی مخالفت بھی چھپی ہوئی تھی۔
ٹرمپ نے اس ملاقات کے دوران اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حماس کے قیدیوں کو ہفتے تک رہا نہ کیا گیا تو اسرائیل کی بمباری دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
لازمی پڑھیں: چین کی امریکا پر شدید تنقید: تائیوان اسٹریٹ میں امریکی نیول پیٹرول نے سیکیورٹی خطرات بڑھا دیے
ان کا کہنا تھا کہ “میرے خیال میں وہ وقت پر قیدیوں کو نہیں چھوڑیں گے، لیکن ہم دیکھیں گے۔”
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی ٹرمپ کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ اگر قیدیوں کی رہائی نہ ہوئی تو بمباری دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
ٹرمپ کی غزہ کے بارے میں گفتگو میں ان کا ماضی کا رئیل اسٹیٹ کا تجربہ واضح طور پر جھلکتا تھا۔ وہ غزہ کو ایک “قیمتی جواہر” کی طرح دیکھتے ہیں جسے دوبارہ تعمیر کرکے اقتصادی خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔
مگر یہ نظریہ فلسطینیوں کی تاریخی جڑوں اور ان کی زمین سے تعلقات کو نظرانداز کرتا ہے جو اس زمین کو صرف ایک اقتصادی یا جغرافیائی وحدت کے طور پر نہیں دیکھتے۔
بعد از ملاقات اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے کہا کہ عرب ممالک غزہ کے مسئلے کے حل کے لیے ایک متبادل منصوبہ تیار کر رہے ہیں، جس میں فلسطینیوں کی بے دخلی کا کوئی منصوبہ شامل نہیں ہوگا۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ “غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک عرب منصوبہ تیار ہو رہا ہے جو وہاں کے عوام کی مرضی اور ان کی موجودہ حیثیت کے مطابق ہو گا۔”
یہ بات صاف ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ کا غزہ پر قبضے کا منصوبہ ایک مذاکراتی حکمت عملی ہو سکتی ہے جس کا مقصد عرب ممالک سے بہتر تجاویز حاصل کرنا ہو۔
یہ ملاقات کافی دلچسپ رہی، جہاں ایک طرف ٹرمپ نے غزہ کے حوالے سے اپنے جارحانہ منصوبے کا اعادہ کیا، تو دوسری طرف بادشاہ عبد اللہ نے عرب ممالک کی خود مختاری اور فلسطینیوں کے حقوق کی بات کی۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا عرب ممالک ٹرمپ کے دباؤ کو نظرانداز کر کے اپنی مرضی کے مطابق کوئی حل نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا غزہ میں جاری بحران عالمی سطح پر مزید پیچیدگیوں کا شکار ہو جائے گا۔