ہر سال پاکستان سمیت دنیا بھر میں 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے، یہ دن ریڈیو کے شاندار ماضی، اس کے فوائد اور ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔
آج کی ڈیجیٹل دور میں ریڈیو عام ہے، مگر ہم میں سے کوئی بھی اسے سننا نہیں چاہتا، پاکستان کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جس نے گزشتہ ایک لمبے عرصے سے ریڈیو نہیں سنا، اس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں، بلکہ جدید ذرائع کا ہونا ہے۔
ریڈیو کی تاریخ کافی پرانی ہے، 13 مئی 1897 کو اٹلی کے سائنسدان مارکونی کی اس ایجاد نے دنیا بھر میں شور برپا کر دیا، لوگ دیکھنے کے لیے بے تاب تھے کہ آخر وہ کونسی چیز ہے، جو بولتی ہے، پہلی عوامی نشریات 24 دسمبر 1906 کو ہوئیں۔
جنوبی ایشیا میں ریڈیو کی آواز 1930 میں پہلی بار سنی گئی، برصغیر کا پہلا اور واحد نشریاتی ادارہ ”آل انڈیا ریڈیو” لاہور میں قائم کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت آل انڈیا ریڈیو کے تین اسٹیشنز پاکستان کے حصے میں آئے، جن میں لاہور، پشاور اور ڈھاکہ شامل تھے۔
14 اور 15 اگست 1947 کی درمیانی شب عین بارہ بجے انھیں اسٹیشنز سے قیامِ پاکستان کی خوشخبری دی گئی اور اعلان کیا گیا، جس کے بعد ان اسٹیشنز کو ریڈیو پاکستان کا نام دیا گیا۔

(فائل فوٹؤ/دا نیوز)
قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں ریڈیو برطانوی حکومت کے زیرِ انتظام تھا، جو زیادہ تر سرکاری بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آزادی کی جدو جہد میں ریڈیو پاکستان نے اہم کردار اداکیا، ریڈیو ایک مؤثر ذریعہ بنا جس کے ذریعے عوام کو متحرک کیا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان نے قومی یکجہتی کے فروغ، ثقافت، ادب، موسیقی اور تعلیمی میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ پاکستان کی آزادی کی خبر سب سے پہلے ‘آل انڈیا ریڈیو لاہور’ سے دی گئی، رضا علی ہمدانی نے اعلان کیا کہ ”یہ ریڈیو پاکستان لاہور کی آواز ہے۔”
ریڈیو پاکستان نے قوم کی رہنمائی کرنے میں مدد کی، 1965 کی جنگ میں نور جہاں اور دیگر گلوکاروں کے ملی نغموں نے ریڈیو کے ذریعے پوری قوم میں جوش و خروش پیدا کیا۔
گزشتہ دو دہائیوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی ایجادات کی بدولت ریڈیو پاکستان کی مقبولیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، ٹی وی، سوشل میڈیا اور اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کی وجہ سے ریڈیو کے سامعین کم ہوئے ہیں، اس کے علاوہ حکومتی عدم توجہ اور سامعین کی کم دلچسپی نے ریڈیو پاکستان کو تباہ کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں: ’ منی لانڈرز کو اقتدار میں بٹھایا گیا ہے‘ عمران خان نے آرمی چیف کو تیسرا خط لکھ دیا
‘پاکستان میٹرز’ کے میزبان شکیل گیلانی نے بتایا ہے کہ ریڈیو پاکستان کی اہمیت میں کمی کی بڑی وجوہات میں جدید ڈیجیٹل میڈیا کا عروج، حکومتی عدم توجہ اور تکنیکی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونا شامل ہیں۔ ریڈیو کے مواد کو نئی نسل کے مطابق ڈھالنے میں ناکامی بھی اس کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنی ہے۔
دوسری جانب سابق ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان مشتاق سہیل کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں میں ریڈیو کو ہمیشہ کم ترجیح دی گئی، بجٹ میں کٹوتیاں اور انفراسٹرکچر کی بہتری پر سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارہ زوال کا شکار ہوا۔ اگر حکومت ریڈیو کے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرے تو اس کا احیا ممکن ہے۔
ریڈیو پاکستان نہ صرف معلوماتی نشریات کا ذریعہ ہے، بلکہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ بھی ہے، شکیل گیلانی کا کہنا ہے کہ ریڈیو پاکستان نہ صرف قومی ثقافت کا اہم حصہ ہے بلکہ معلوماتی اور تعلیمی نشریات کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس کا احیا پاکستان کی تاریخ، موسیقی اور مقامی زبانوں کے فروغ کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

( فائل فوٹو/ڈاؤن نیوز )
آج ریڈیو پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ ملازمین کو وقت پر تنخواہیں نہیں ملتیں، جدید آلات کی کمی ہے اور سامعین کی کمی کے باعث نشریاتی معیار پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اشتہارات کی کمی نے آمدنی میں زبردست کمی کر دی ہے، جس کی وجہ سے ایک سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا ریڈیو پاکستان کی بحالی ممکن ہے؟
گورنمنٹ گریجویٹ کالج ننکانہ صاحب کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر محمد بلال نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ ریڈیو کی بحالی میں نجکاری ایک ممکنہ حل ہو سکتا ہے کیونکہ سرکاری سرپرستی میں ریڈیو کے مالی مسائل حل نہیں ہو رہے۔ اگر ریڈیو کو کسی پروفیشنل میڈیا گروپ کے تحت چلایا جائے تو یہ مزید مؤثر انداز میں کام کر سکتا ہے۔ تاہم اس میں قومی مفادات کو مدنظر رکھنا ضروری ہوگا۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں ریڈیو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ساتھ منسلک ہو کر مقبولیت حاصل کر رہا ہے، پاکستان میں بھی اگر ریڈیو کو آن لائن اسٹریمنگ، پوڈکاسٹ اور سوشل میڈیا کے ساتھ مربوط کیا جائے تو اسے نئی زندگی دی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’طلبا اپنی تعلیم پر توجہ دیں‘ آرمی چیف کا سٹوڈنٹس کے اجتماع سے خطاب
شکیل گیلانی نے کہا ہے کہ ریڈیو پاکستان کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے کہ اسمارٹ فون ایپس، یوٹیوب اور اسٹریمنگ سروسز پر منتقل کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، جدید نشریاتی ٹیکنالوجیز اپنانا، نوجوان سامعین کے لیے مخصوص پروگرام بنانا اور اشتہاری ماڈل بہتر کرنا بھی اہم اقدامات ہیں۔
دوسری جانب عموماً حرفِ عام میں یہ سوال سننے کو ملتا ہے کہ کیا نوجوان نسل ریڈیو میں دوبارہ دلچسپی لے سکتی ہے؟ پروفیسر بلال کے مطابق اگر ریڈیو کو جدید طرز پر پیش کیا جائے، اس میں نوجوانوں کے لیے دلچسپ موضوعات شامل کیے جائیں اور انٹرایکٹو پروگرام متعارف کروائے جائیں، تو یہ دوبارہ نوجوان نسل کی توجہ حاصل کر سکتا ہے۔
پروفیسر بلال کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ریڈیو کو جدید اسٹریمنگ سروسز، پوڈکاسٹ، اور سوشل میڈیا انٹیگریشن کے ذریعے کامیابی سے آگے بڑھایا گیا ہے۔ پاکستان بھی اگر ان ماڈلز کو اپنائے تو ریڈیو پاکستان اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ ریڈیو پاکستان ایک قومی اثاثہ ہے، جسے مکمل طور پر ختم ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ اس کے مستقبل کے کردار کو بحال کرنے کے لیے حکومت، میڈیا اور عوام کو مشترکہ طور پر اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ یہ ادارہ ایک بار پھر عوام کی آواز بن سکے۔
لازمی پڑھیں: پنجاب اسمبلی اجلاس، مزید نئے 5 بل پیش