مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور وسطی امریکی قوم کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ریاست ہائے متحدہ امریکہ نےپاکستانی اور انڈین سمیت مختلف قومیتوں کے 119 افراد کو ملک بدر کر دیا گیا۔
عالمی خبر ارساں ادارہ رائٹرز کے مطابق پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ سے پہلی پرواز، پاکستان، افغانستان، چین، بھارت، ایران، نیپال، سری لنکا، ترکی، ازبکستان اور ویتنام کے لوگوں کو لے کر بدھ کو پانامہ میں پہنچی، اور دو مزید جلد اتریں گی۔ مجموعی طور پر امریکہ پاناما 360 افراد کو تین پروازوں پر بھیجے گا۔
ان کے اپنے ممالک میں واپس جانے سے پہلے، ڈی پورٹیز کو ڈیرین کے قریب ایک پناہ گاہ میں منتقل کیا جائے گا،جو وسطی امریکہ کو جنوبی امریکہ سے الگ کرنے والا جنگل ہے جہاں سے لاتعداد تارکین وطن امریکہ پہنچنے کی کوشش میں گزرتے ہیں۔
ملینو نے کہا، “امریکی حکومت کے ساتھ تعاون کے پروگرام کے ذریعےامریکی فضائیہ کی ایک پرواز دنیا کی متنوع قومیتوں کے 119 افراد کے ساتھ پہنچی۔”
امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
اس ماہ کے شروع میں، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ بات چیت کے بعد، ملینو نے زور دیا کہ پاناما نہر پر خودمختاری بحث کے لیے تیار نہیں ہے۔ تاہم، انہوں نے مزید تارکین وطن کی وطن واپسی کے امکان کا خاکہ پیش کیا ہے۔

اس میٹنگ میں ملینو نے یہ بھی اعلان کیا کہ امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ساتھ جولائی میں دستخط کیے گئے مفاہمت کی یادداشت میں توسیع کی جا سکتی ہے تاکہ وینزویلا، کولمبیا اور ایکواڈور کے باشندوں کو امریکی قیمت پر خطرناک ڈیرین گیپ سے پانامہ کی فضائی پٹی کے ذریعے واپس لایا جا سکے۔
پاناما کے نائب وزیر برائے سیکیورٹی لوئس اکزا نے کہا کہ پاناما اور امریکا کے درمیان دو طرفہ تعاون کی بدولت ایک سال پہلے کے اسی مہینے کے مقابلے جنوری میں ڈیرین کو عبور کرنے والے تارکین وطن کے بہاؤ میں 90 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہفتے میں 7 ہزار 300 غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کر کےملک بد کر دیا گیا تھا۔ جبری بیدخل کیے گئے افراد میں سے زیادہ تر پر تشدد واقعات میں ملوث افراد تھے۔
ان ملک بدر ہونے والے افراد مین سے کچھ پاکستانی بھی تھے۔