موسمیاتی بحران ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن اس کے اثرات یکساں نہیں ہیں۔ جہاں دنیا کے بیشتر خطوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات لوگوں کی زندگیوں میں اتنے گہرے نہیں ہیں، وہیں خواتین اور لڑکیاں ان اثرات کا زیادہ شکار ہو رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق جب کسی کمیونٹی پر قدرتی آفات آتی ہیں تو خواتین اور لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
وہ نہ صرف جسمانی نقصان کا شکار ہوتی ہیں بلکہ ان کے خلاف تشدد، اسکول چھوڑنے، بچیوں کی جبری شادی اور جنسی استحصال کے واقعات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
عالمی ادارے یونیسف کے مطابق نائجیریا میں 5 سے 14 سال تک کے 1 کروڑ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جا پاتے، جن میں لڑکیاں سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

(فائل فوٹو/ سی این این)
شمال مشرقی اور شمال مغربی ریاستوں میں لڑکیوں کی اسکول میں شرکت نصف سے بھی کم ہے۔ یہ بحران موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے مزید پیچیدہ ہو چکا ہے۔
موسمی آفات، جیسے سیلاب اور لینڈ سلائیڈز اسکولوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور کمیونٹیز اکثر اپنے بچوں کو مدد کے لیے میدان میں بھیج دیتی ہیں۔
لڑکیاں جو پہلے ہی اسکول جانے کے حوالے سے سماجی رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہیں ان کے لیے یہ حالات مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔ تاہم، ایسی تنظیمیں جیسے “سنٹر فار گرلز ایجوکیشن” اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ لڑکیاں موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی تعلیم حاصل کریں اور خود کو محفوظ رکھیں۔
برازیل کے ایمیزون جنگل میں موسمیاتی بحران اور درختوں کی کٹائی نے ایک نئی صنفی جنگ کو جنم دیا ہے۔
ایمیزون کا باربسو نٹ، جو ماحولیات کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے، خواتین کے روزگار کا بنیادی حصہ رہا ہے۔ مگر اب بڑے زرعی ادارے اس تک رسائی روک رہے ہیں، جس سے ان خواتین کی معیشت متاثر ہو رہی ہے۔
2000 خواتین نے مل کر “باباسو نٹ بریکرس موومنٹ” کی بنیاد رکھی ہے، جو نہ صرف ماحول کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہیں بلکہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے بھی سرگرم ہیں۔

(فائل فوٹو/ سی این این)
فلپائن میں طوفان “ہائینان” کے بعد، انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ موسمی آفات کی وجہ سے خواتین اور لڑکیاں بے گھر ہوتی ہیں اور یہ حالات اسمگلروں کے لیے انتہائی سازگار بن جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات کے دوران خواتین اور لڑکیاں جنسی استحصال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے “پیپلز ریکاوری ایمپاورمنٹ ڈیولپمنٹ ایسسٹنس” (PREDA) جیسے ادارے خواتین کو بچانے اور ان کو نئے آغاز کے مواقع فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔
پاکستان میں سندھ کے علاقے جیکب آباد میں خواتین شدید گرمی کے دوران حاملہ ہونے کے بعد مشکلات کا شکار ہو رہی ہیں۔
2022 میں یہاں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا۔ اس میں حاملہ خواتین کے لیے کئی مسائل پیدا ہوئے، جن میں اسکموتھ اور خوراک کی کمی شامل ہیں۔
ان خواتین کی جسمانی حالت گرمی کی شدت کے باعث مزید خراب ہو جاتی ہے اور ان کے لیے بنیادی سہولتوں تک رسائی ایک چیلنج بن جاتی ہے۔
اس کے علاوہ گواٹیمالا میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے زراعت کی حالت بدتر ہو گئی ہے، جس سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
یہ بحران خاص طور پر خواتین پر اثرانداز ہو رہا ہے، جو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ روزگار کے لیے بھی جدوجہد کر رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی میں اضافہ ہو رہا ہے، اور خواتین اس کا سب سے بڑا اثر سہہ رہی ہیں۔

(سی این این / فائل فوٹو)
دوسری جانب بنگلادیش میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے سبب بچیوں کی جبری شادیاں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔
یہاں قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں غربت بڑھ گئی ہے، اور والدین مالی مشکلات سے بچنے کے لیے بچیوں کو کم عمری میں شادی کے لیے دے دیتے ہیں۔ ایسے حالات میں لڑکیاں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
اس کے علاوہ کینیا میں جہاں 75 فیصد لوگ زراعت پر منحصر ہیں، موسمیاتی بحران نے خشک سالی اور سیلاب کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا ہے جس نے خواتین کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔
اس کا اثر نہ صرف ان کے روزگار پر پڑا ہے بلکہ صنفی بنیاد پر تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ موسمی آفات کے دوران خواتین اکثر تشدد اور جنسی استحصال کا شکار ہو جاتی ہیں، اور اس کا مقابلہ کرنا ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔
یہ تمام صورتحال نہ صرف موسمیاتی بحران کی شدت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ اس بات کو بھی سامنے لاتی ہیں کہ خواتین اور لڑکیاں کس طرح اس بحران میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔
یہ خواتین نہ صرف مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں بلکہ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اپنے خاندانوں اور کمیونٹیوں کو بہتر بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔
ان کی جدوجہد ایک مثالی نمونہ ہے کہ کیسے ایک خاتون اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکتی ہے، چاہے حالات جتنے بھی مشکل ہوں۔
موسمیاتی تبدیلیاں اور صنفی عدم مساوات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ان کی آواز سننی ہوگی اور دنیا بھر میں ان خواتین کی حمایت کرنی ہوگی جو اس جدوجہد میں شامل ہیں۔