مصطفیٰ کیس کے حوالے سے ڈی آئی جی سی آئے نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ شواہد مل گئے ہیں کہ مصطفیٰ کو قتل کیا گیا تھا، مصطفیٰ کو قتل کر کے اس کی لاش گاڑی میں ڈال کر جلا دی گئی۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو تاوان کی کال موصول ہوئی تھی، تاوان کی کال آنے کے بعد کیس ہمیں ٹرانسفر کیا گیا، 23 سالہ مصطفیٰ 6 جنوری کو لاپتہ ہوا اور 7 جنوری کو گمشدگی کا مقدمہ درج ہوا۔
مقدس حیدر نے کہا ہے کہ ڈی ایچ اے میں چھاپا مارا اور ارمغان نامی شخص کو گرفتار کر لیا، مغوی کا موبائل ملزم ارمغان کے گھر سے برآمد ہوا، جوکہ کیس کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ پولیس نے چھاپہ مارا تو وہاں پر گھر کے کارپیٹ پر خون کے نشان اور مصطفیٰ کا موبائل فون ملا۔
ڈی آئی جی سی آئی اے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مصطفیٰ ملزم ارمغان کے گھر پر گیا تھا، جہاں اسے جھگڑے کے بعد قتل کر دیا گیا، پولیس نے ارمغان کے گھر پر چھاپہ مارا تو فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں ڈی ایس پی ذوالفقار اور ایک سپاہی بھی زخمی ہوا۔
مقدس حیدر نے کہا ہے کہ مصطفیٰ کی لاش گاڑی میں ڈال کر ملزمان نے اسے ضلع حب میں دراجی اسٹیشن کے قریب جلایا، ریسکیو سروس نے مصطفیٰ کی لاش کو لاوارث سمجھ کر دفنا دیا تھا۔
ڈی آئی جی سی آئی اے نے کہا ہے کہ سی پی ایل سی اور وفاقی حساس ادارے کی مدد سے تحقیقات کی گئیں۔
ارمغان اور شیرازی بخاری دوست ہیں اور مصطفیٰ بھی ان کا دوست تھا، ارمغان نے مصطفیٰ کو اپنے گھر فون کر کے بلایا تھا، نیو ائیر پر دوستوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔
مقدس حیدر نے کہا ہے کہ ملزم ارمغان کال سینٹر چلاتا تھا اور اس کے پاس سے 64 لیپ ٹاپ ملے ہیں، مزید یہ کہ دو ملازمین کو بھی ارمغان کے ساتھ گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ بھی 6 جنوری کو وہ بھی ارمغان کے گھرف پر موجود تھے۔
مقدس حیدر نے کہا ہے کہ عدالت کو ریمانڈ کی درخواست دی، مگر قبول نہیں ہوئی، اب کل ملزم ارمغان کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔