پاکستان میں مہنگائی کے طوفان نے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے، حالیہ دنوں میں خوردنی تیل (Edible Oil) کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہریوں کو شدید متاثر کیا ہے۔
عالمی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، درآمدی اخراجات میں اضافے اور مقامی پالیسیوں کی وجہ سے یہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایسے میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں جیسے خوردنی تیل کی قیمتیں کب کب اور کتنی بڑھیں؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ آئل ملز مالکان، عوام اور حکومت اس حوالے سے کیا کہہ رہے ہیں؟ اور ماہرین کا کیا موقف ہے؟
پاکستان میں خوردنی تیل کی قیمتیں وقتاً فوقتاً بڑھتی رہی ہیں، لیکن 2024 اور 2025 میں ان میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اکتوبر 2024 میں گھی اور خوردنی تیل کی قیمت میں فی کلو 40 سے 50 روپے اضافہ ہوا۔ فروری 2025 میں خوردنی تیل کی قیمت میں مزید 10 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا، جو عوام کے لیے ایک اور بڑا دھچکا تھا۔
قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمت میں اضافہ، ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی، اور مقامی سطح پر پیداوار کم ہونا شامل ہیں۔
پاکستان میں زیادہ تر خوردنی تیل درآمد کیا جاتا ہے، خاص طور پر ملائیشیا اور انڈونیشیا سے پام آئل درآمد کیا جاتا ہے۔ 2024 کے آخر میں ملائیشیا میں خراب موسم اور سپلائی چین میں مسائل کی وجہ سے پام آئل کی پیداوار کم ہوئی جس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ گئیں۔
پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور ڈالر کے مقابلے میں اس کی گرتی ہوئی حیثیت بھی خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بنی۔ چونکہ پاکستان خوردنی تیل درآمد کرتا ہے، اس لیے ڈالر مہنگا ہونے سے تیل کی درآمدی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان بزنس فورم کے صدر خواجہ محبوب نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ ماہ رمضان کے دوران کوکنگ آئل اور گھی کی ممکنہ قلت کا خدشہ ہے کیونکہ کسٹم کلیئرنس کے مسائل کی وجہ سے پورٹ قاسم پر تقربیاً 3 لاکھ ٹن پام آئل پھنسا ہوا ہے۔
صدر پاکستان بزنس فورم خواجہ محبوب الرحمن نے بتایا کہ نئے نافذ کیے گئے فیس لیس کسٹمز سسٹم نے خوردنی تیل کی کلیئرنس کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے ملک بھر میں سپلائی چین متاثر ہوئی ہے۔ کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے پھنسے ہوئے جہازوں پر 50 سے 60 ڈالر فی ٹن ڈیمریج چارجز عائد ہورہے ہیں۔
خواجہ محبوب نے کہا ہے کہ یہی صورتحال رہی تو رمضان المبارک میں قیمتوں میں 25 سے 30 روپے فی کلو اضافہ ہوسکتا ہے۔
بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت خوردنی تیل پر تقریباً 100 روپے فی کلو کے ٹیکس وصول کر رہی ہے جس سے قیمتیں مزید بڑھ گئی ہیں۔
دوسری جانب آئل ملز مالکان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت یہ ٹیکس کم کر دے تو قیمتوں میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں خوردنی تیل کی مقامی پیداوار انتہائی محدود ہے، جس کی وجہ سے درآمدات پر انحصار زیادہ ہے۔ اگر حکومت مقامی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات کرے تو قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
آئل ملز مالکان کا مؤقف کہ عالمی سطح پر خام مال کی قیمتوں میں اضافے، روپے کی قدر میں کمی، اور حکومتی ٹیکسز کی وجہ سے قیمتیں بڑھانا ان کی مجبوری ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکسز میں کمی کرے اور کاروباری لاگت کم کرنے میں مدد فراہم کرے۔
پاکستان میں پہلے ہی مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہریوں کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایک گھریلو خاتون نے تیل کی قیمت میں اضافے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “پہلے ہی کھانے پینے کی چیزیں مہنگی تھیں، اب تیل بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ سبزی پکانے کے لیے بھی ہمیں تیل کی مقدار کم کرنی پڑ رہی ہے۔”
ایک دکاندار کے مطابق قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے گاہکوں نے خریداری کم کر دی ہے جس سے ان کے کاروبار پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔
ادھر حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اثر مقامی مارکیٹ پر بھی پڑتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے حالیہ اجلاس میں کہا کہ “ہم عوام پر بوجھ کم کرنے کے لیے سبسڈی دینے پر غور کر رہے ہیں، لیکن عالمی مارکیٹ کے حالات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔”
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) نے وزارت صنعت اور قومی پرائس مانیٹرنگ کمیٹی سے اس مسئلے پر رپورٹ طلب کر لی ہے، تاہم عوام کو فوری طور پر ریلیف ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر حکومت خوردنی تیل پر عائد ٹیکسز میں کمی کرے، درآمدی پالیسیوں کو بہتر بنائے اور مقامی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے منصوبے شروع کرے تو اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔
اقتصادیات کے پروفیسر ڈاکٹر آصف کامران نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں مہنگائی کا ایک بڑا سبب درآمدی اشیا پر انحصار ہے۔ اگر حکومت زرعی شعبے میں اصلاحات لا کر خوردنی تیل کی مقامی پیداوار میں اضافہ کرے، تو ہمیں عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ پر کم انحصار کرنا پڑے گا۔”
پاکستان میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں عالمی منڈی میں قیمتوں کا بڑھنا، روپے کی قدر میں کمی، اور حکومتی پالیسی شامل ہیں۔ عوام مہنگائی کے اس بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، جبکہ آئل ملز مالکان حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ حکومت نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے لیکن فوری ریلیف کے امکانات کم نظر آ رہے ہیں۔
اگر حکومت بروقت اقدامات نہ کرے تو مستقبل میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جس کے اثرات عام شہریوں اور ملک کی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔