میکسیکو نے گوگل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اُس نے ‘خلیج میکسیکو’ کا نام ‘خلیج امریکا’ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ واپس نہ لیا تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔
میکسیکو کی حکومت کے مطابق گوگل کا یہ اقدام اُس کے قومی حقوق اور علاقائی حدود کی خلاف ورزی ہے خاص طور پر اُس حصے میں جو خلیج میکسیکو کے امریکی علاقے کے علاوہ دیگر ممالک کی حدود میں آتا ہے۔
میکسیکو کی صدر ‘کلاڈیا شیانباؤم’ نے پیر کو ایک اہم بیان میں کہا کہ ان کا ملک اس معاملے پر قانونی چارہ جوئی کرنے کے لیے تیار ہے اگر گوگل نے فوری طور پر اس تبدیلی کو واپس نہیں لیا۔
شیانباؤم نے کہا کہ “خلیج میکسیکو کا نام کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ صرف امریکا کی حدود تک محدود نہیں ہے۔”

(فائل فوٹو/ گوگل )
انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اس نام کی تبدیلی کا اطلاق صرف اُس علاقے پر ہوتا ہے جو امریکہ کے زیرِ انتظام ہے اور میکسیکو، کوبا یا دوسرے ممالک کے پانیوں کو شامل کرنا کسی صورت درست نہیں۔
یہ تنازعہ اُس وقت شروع ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2025 میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے مطابق خلیج میکسیکو کا نام امریکی صارفین کے لیے خلیج امریکا کر دیا گیا۔
گوگل اور ایپل جیسے ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اس آرڈر کی پیروی کرتے ہوئے اپنے نقشوں میں یہ تبدیلی کر دی جس پر میکسیکو نے شدید اعتراض کیا۔
گوگل نے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد صرف مختلف حکومتوں کی جانب سے دئیے گئے جغرافیائی ناموں کی عکاسی کرنا ہے۔
کمپنی کے مطابق خلیج امریکا کا نام صرف امریکا کے صارفین کے لیے دکھایا جائے گا، جب کہ میکسیکو کے صارفین کو یہی جگہ خلیج میکسیکو کے طور پر دکھائی دے گی۔
گوگل نے مزید کہا کہ کمپنی اس معاملے پر تعمیراتی گفتگو کے لیے تیار ہے لیکن اگر میکسیکو کی حکومت نے اس اقدام کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تو گوگل اس پر بھی غور کرے گا۔
مزید پڑھیں: ٹورنٹو ائیر پورٹ پر مسافر طیارہ لینڈنگ کے دوران اُلٹ گیا، 18 زخمی
میکسیکو کی صدر شیانباؤم نے اس سلسلے میں ایک اضافی خط بھی گوگل کو بھیجا ہے جس میں تاکید کی گئی ہے کہ خلیج امریکا کا نام صرف امریکہ کے زیرِ انتظام حصے میں ہی استعمال کیا جائے اور دیگر ملکوں کی حدود میں یہ نام کسی صورت استعمال نہ کیا جائے۔
میکسیکو کی حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے قومی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی اور اس معاملے میں قانونی طریقے اپنانا بھی اس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
شیانباؤم نے اپنے بیان میں ایک دلچسپ تجویز بھی پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ “اگر امریکا خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کرنا چاہتا ہے تو شاید اسے اپنی سرزمین کا نام بھی تبدیل کر کے ‘میکسیکو امریکا’ رکھنا چاہیے جیسے کہ 1848 سے پہلے تھا جب میکسیکو نے اپنا کچھ حصہ امریکا کو کھو دیا تھا۔”

اس تجویز میں شیانباؤم نے تاریخی حوالہ دے کر اپنے موقف کو مزید واضح کیا اور اس تنازعہ کو ایک نیا رخ دیا۔
اس کے علاوہ گوگل کے ساتھ ساتھ ایپل نے بھی ٹرمپ کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے نقشوں میں خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکا میں تبدیل کر دیا ہے۔ تاہم میکسیکو کی حکومت کا کہنا ہے کہ دونوں کمپنیاں اس اقدام سے انکار کریں اور جغرافیائی حقیقتوں کا احترام کریں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ کی غیر ملکی امداد معطلی، ایڈز سے لاکھوں اموات کا خدشہ: اقوام متحدہ
یہ تنازعہ اس وقت مزید پیچیدہ ہو گیا جب میکسیکو نے عالمی سطح پر گوگل اور ایپل کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ میکسیکو کی حکومت نے اپنے موقف میں پختگی دکھائی ہے اور اعلان کیا ہے کہ اگر گوگل نے اس مسئلے پر کوئی سنجیدہ ردعمل نہ دیا تو قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔
میکسیکو کی صدر شیانباؤم نے آخر میں کہا کہ حکومت گوگل کے جواب کا انتظار کرے گی اور اس کے بعد فیصلہ کرے گی کہ آیا اس کیس کو عدالت میں لے جانا ضروری ہے یا نہیں۔
اس وقت تک یہ معاملہ دنیا بھر میں خبروں کا موضوع بن چکا ہے، اور ماہرین اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ یہ قانونی لڑائی نہ صرف جغرافیائی مسائل کو بلکہ بین الاقوامی تعلقات کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا گوگل اپنے فیصلے کو تبدیل کرتا ہے یا میکسیکو قانونی راستہ اختیار کرتا ہے۔ جیسے جیسے یہ معاملہ بڑھتا جائے گا، دنیا بھر میں اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے اور یہ معاملہ بین الاقوامی جغرافیائی سیاست میں ایک نیا موڑ لے سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: روس نے مذاکرات سے قبل امریکی قیدی کو رہا کر دیا