اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کافی پس و پیش، تاخیری حربوں اور انکار کے بعد بالآخر مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے مذاکراتی وفد تشکیل دے دیا۔
جب کہ حماس کے جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ سے مکمل انخلا اور مستقل جنگ بندی کی یقین دہانی کرائے تو وہ تمام اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کے یکبارگی تبادلے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
انہوں نے اس بات کا اعلان بھی کیا ہے کہ وہ چار اسرائیلیوں کی نعشیں اور چھ زندہ یرغمالیوں کو جمعرات کے روز اسرائیلی حکام کے حوالے کر دیں گے۔
اس حوالے سے اسرائیلی وزیر خارجہ نے بتایا کہ جنگ بندی مذاکرات کا دوسرا روز رواں ہفتے جاری رہے گا۔
دریں اثنا تحریک حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ثالثوں کے وعدوں اور ضمانتوں کی بنیاد پر انسانی ہمدردی کے پروٹوکول پر عمل درآمد شروع کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ آج کا تبادلہ حماس کی جانب سے ثالثوں کے ساتھ کیے گئے وعدوں اور ضمانتوں کے حصول کے بعد اسرائیلی فریق کو معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پابند کرنے کا عہد ہے۔
پہلے مرحلے میں 42 روزہ جنگ بندی کے دوران 33 اسرائیلی مغویوں کی رہائی اور سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی آزادی کا معاہدہ طے پایا تھا۔ تاہم، دوسرے مرحلے میں باقی 64 مغویوں کی رہائی کے لیے سخت مذاکرات متوقع ہیں، کیونکہ اس میں جنگ کے بعد غزہ کے انتظامی امور جیسے حساس معاملات شامل ہیں۔
اسرائیلی حملوں میں اب تک 48,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، ہزاروں عمارتیں تباہ اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی حکومت نے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ “غزہ کے بے گھر افراد کے لیے موبائل ہومز کی فراہمی کی اجازت دی جائے گی۔” تاہم، جب اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو حماس نے قیدیوں کی رہائی مؤخر کر دی تھی۔
جنگ بندی کی کوششوں کے دوران، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے اور غزہ کو امریکی کنٹرول میں دینے کی تجویز دی تھی، جسے فلسطینی گروپوں، عرب ممالک اور مغربی اتحادیوں نے مسترد کرتے ہوئے اسے “نسل کشی” قرار دیا گیا۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے اعلان کیا کہ “غزہ چھوڑنے کے خواہشمند افراد کے لیے ایک خصوصی یونٹ قائم کیا جائے گا جو انہیں تیسرے ملک منتقل کرنے میں مدد دے گا۔”