غزہ میں اسرائیل کے جنگی حملوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کی صورتحال ایک سنگین منظرنامہ پیش کر رہی ہے، جسے حالیہ رپورٹوں میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عالمی بینک کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق غزہ کی مکمل دوبارہ تعمیر اور بحالی کے لیے 53.2 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
یہ رقم اگلے 10 برسوں میں خرچ کی جائے گی جس میں سے ابتدائی تین برسوں کے دوران تقریبا 20 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
غزہ میں 8 اکتوبر 2023 سے 8 اکتوبر 2024 تک اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 49 ارب ڈالر کی مالی تباہی ہوئی ہے۔
اس حملے کا اثر غزہ کے تمام شعبوں پر پڑاہے جن میں عمارات، سڑکیں، پل، پانی کی فراہمی کے نظام اور دیگر اہم انفراسٹرکچر شامل ہیں۔

(فائل فوٹو/ گوگل)
سب سے زیادہ تباہی کا سامنا رہائشی عمارتوں کو ہوا جس میں تقریباً 292,000 گھر تباہ یا نقصان کا شکار ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 53 فیصد تباہی صرف رہائشی مکانات کی وجہ سے ہوئی جس کا تخمینہ 15.2 ارب ڈالر ہے۔
اس کے علاوہ غزہ کی معیشت تقریبا 83 فیصد سکڑ چکی ہے، اور 95 فیصد اسپتالوں کی فعالیت متاثر ہو چکی ہے۔ صحت، تعلیم، صنعت اور تجارت کے شعبے بھی زبردست نقصان کا شکار ہوئے ہیں جنہیں دوبارہ سے بحال کرنے کے لیے 19.1 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ بندی: حماس نے آج چار لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
مستقبل میں غزہ کی بحالی کے لیے ایک بڑا چیلنج اس کی حکومتی حیثیت ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان غیر یقینی جنگ بندی کے باوجود، غزہ کے مستقبل کی حکومت کے بارے میں کوئی واضح تصویر نہیں ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر حماس غزہ کے علاقے میں موجود رہا تو اسرائیل کسی بھی بحالی کے منصوبے کو قبول نہیں کرے گا۔
اسی دوران سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لیے اپنے غیر معمولی منصوبے کی تجویز دی ہے۔ اس کے مطابق، غزہ کے 2 ملین فلسطینی باشندوں کو نکال کر اسے “مشرق وسطیٰ کی ریویرا” میں تبدیل کیا جائے گا جس پر اسرائیل اور مصر دونوں کی حمایت حاصل ہے۔
تاہم اس منصوبے میں فلسطینیوں کی آبادکاری کے لیے نہ صرف ایک نیا سیاسی چیلنج پیدا ہوگا بلکہ عالمی سطح پر شدید مخالفت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
مصر اس مسئلے کا حل پیش کرنے کے لیے ایک جامع عربی منصوبے پر کام کر رہا ہے جس میں غزہ کی آبادی کو بے دخل کیے بغیر اس کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی۔
اس کے علاوہ مصر کے وزیر خارجہ بدر عبد العاطی کے مطابق ان کا منصوبہ غزہ کے داخلی علاقے میں “محفوظ علاقے” قائم کرنے کا ہے جہاں فلسطینی باشندے رہ سکیں گے، جبکہ انٹرنیشنل اور مصری تعمیراتی کمپنیاں غزہ کی تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کریں گی۔
لازمی پڑھیں: اسرائیل جنگ بندی معاہدے کے تحت وعدہ شدہ امداد روک رہا ہے: غزہ انتظامیہ
اس منصوبے کے لیے عرب اور خلیجی ریاستوں سے تقریبا 20 ارب ڈالر فراہم کیے جائیں گے۔
مصر کا یہ منصوبہ ایک اہم سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا غزہ کی آبادی کو بے دخل کیے بغیر تعمیر نو ممکن ہو گی؟ اگرچہ اسرائیل نے اس منصوبے کی ابتدائی حمایت کی ہے مگر اس کی طرف سے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ حماس کو غزہ سے ختم کیا جائے۔
غزہ کے مستقبل پر غیر یقینی صورتحال کا بادل چھایا ہوا ہے، اور بین الاقوامی کمیونٹی میں غزہ کی تعمیر نو کے حوالے سے مختلف آراء ہیں۔
دوسری جانب کچھ حلقے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو اپنے وطن میں واپس لے کر آنا اور انہیں ایک محفوظ، خودمختار ریاست فراہم کرنا ضروری ہے۔
اس سب کے بیچ ایک طرف عرب دنیا غزہ کی بحالی کے لیے عالمی سطح پر ایک مضبوط اتحاد قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف اسرائیل اپنی فوجی کارروائیاں جاری رکھنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
یہ لمحہ غزہ کے عوام کے لیے ایک اہم ترین دور ثابت ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر غزہ کی تعمیر نو کے لیے جو منصوبے پیش کیے جا رہے ہیں، وہ مکمل طور پر اس بات پر منحصر ہیں کہ غزہ کا مستقبل کس طرح متعین ہوگا، اور اس میں فلسطینی عوام کی آواز کس حد تک سنی جائے گی۔
اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ایک ایسے مستحکم اور پائیدار حل کی ہے جو نہ صرف غزہ کی تعمیر نو کو ممکن بنائے بلکہ وہاں کے عوام کے حقوق کا تحفظ بھی کرے۔