افغانستان کی خواتین کے لیے ایک نیا بحران اس وقت جنم لے رہا ہے جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی امداد کی معطلی نے ہزاروں افغان خواتین کے تعلیمی منصوبوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
طالبان کی جانب سے تعلیمی اداروں کی بندش اور امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان خواتین نے آن لائن تعلیم اور بیرون ملک اسکالرشپ کی مدد سے اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھا تھا مگر اب یہ تمام منصوبے معطل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
افغان خواتین کے لیے تعلیم کا حصول ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے خواتین کی تعلیم پر قدغن لگاتے ہوئے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو بند کر دیا تھا۔
اس کے باوجود امریکی امداد نے افغان خواتین کو ایک آخری موقع فراہم کیا تھا جس کے ذریعے وہ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتی تھیں یا بیرون ملک اسکالرشپ حاصل کر کے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکتی تھیں۔ لیکن ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی امداد کی معطلی نے ان تمام منصوبوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
امریکا کے افغان انخلا کے بعد جب طالبان نے خواتین کی تعلیم پر قدغن لگائی اس کے بعد امریکی امداد نے خواتین کے لیے ایک نئی امید کی کرن پیدا کی تھی۔
لازمی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرین اور ‘زیلنسکی’ کے بارے میں جھوٹے دعوے: حقیقت سامنے آگئی
امریکی یونیورسٹی آف افغانستان اور دیگر تعلیمی ادارے افغان خواتین کو آن لائن تعلیم فراہم کر رہے تھے۔ تاہم ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی امداد کی معطلی کے بعد ان تمام منصوبوں کی رفتار کم ہو گئی ہے۔
امریکی صدر نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر میں کہا تھا کہ غیر ملکی امدادی پروگرامز کے ذریعے دوسرے ممالک میں ایسی نظریات کو فروغ دیا جا رہا ہے جو ملکوں کے درمیان ہم آہنگی کے خلاف ہیں۔
طالبان کی حکومت کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے افغان خواتین کی تعلیم کا حصول اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ طالبان نے خواتین کو مردوں کے علاوہ کسی کو دیکھنے اور طویل فاصلے تک سفر کرنے سے بھی روکا ہے۔
ان کی خواتین پر جابرانہ قوانین کی وجہ سے ان کا معاشرتی کردار تقریبا مٹ چکا ہے۔ افغانستان میں امریکی جنگ کے دوران خواتین نے تعلیمی اور پیشہ ورانہ میدان میں قابل ذکر ترقی کی تھی مگر اب یہ سب کچھ خطرے میں پڑ چکا ہے۔
امریکی امداد کی معطلی کے بعد افغانستان کی ایک بڑی یونیورسٹی، جو امریکا کی مدد سے چل رہی تھی، اس نے اپنے تعلیمی پروگرامز کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس یونیورسٹی میں تقریبا 700 خواتین طالبات متاثر ہو رہی ہیں۔
افغان خواتین کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کی امیدیں بھی ٹوٹ چکی ہیں۔ بنگلہ دیش کی ایشین یونیورسٹی فار وومن نے اس بحران کے دوران افغان خواتین کی مدد کی تھی، اور 600 سے زائد افغان خواتین کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع فراہم کیے تھے لیکن اب ان منصوبوں کی مدد بھی ختم ہو گئی ہے۔
افغان خواتین کی تعلیم کے لیے سب سے بڑی امیدیں آن لائن تعلیم اور بیرون ملک اسکالرشپ پر تھیں، لیکن ان کے لیے یہ راستہ بھی بند ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: “لاشوں میں سے ایک کا تعلق غزہ میں یرغمالیوں سے نہیں ہے” اسرائیلی فوج
‘دا واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق ایک 21 سالہ طالبہ نے بتایا کہ جب وہ کابل ایئرپورٹ سے بنگلہ دیش جا رہی تھی تو طالبان کے اہلکاروں نے اس سے پوچھا کہ وہ ملک کیوں چھوڑ رہی ہے تو اس نے جھوٹ بولا کہ وہ شادی کے لیے جا رہی ہے کیونکہ طالبان کی جانب سے ایسی خواتین کی تعلیم کو روکنے کی سخت کوششیں کی جا رہی ہیں۔
طالبان کی حکومت کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغان خواتین کی تعلیم کے لیے تمام راستے بند ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک 23 سالہ طالبہ، جسے امریکا کی ایک بڑی یونیورسٹی سے اسکالرشپ ملی تھی، انہوں نے ‘دا واشنگٹن پوسٹ ‘ کو بتایا کہ وہ اب بھی اپنے ویزا کے لیے انتظار کر رہی ہے اور اب اسے خوف ہے کہ اس کا ویزا مسترد ہو سکتا ہے۔
‘دا واشنگٹن پوسٹ’ کے مطابق وہ پاکستان کے پشاور میں چھپ کر رہ رہی ہے اور افغان حکومت کے جبر سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس طلبا کا خواب تھا کہ وہ سیاسی سائنس میں تعلیم حاصل کرے تاکہ اپنے ملک کے لیے کچھ کر سکے لیکن اب یہ خواب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
افغان خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں کہ امریکی امداد کی معطلی افغانستان کی معیشت کو مزید بحران میں مبتلا کر سکتی ہے۔
اس کے نتیجے میں افغانستان کی جی ڈی پی میں 7 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ افغان خواتین جو آن لائن تعلیم حاصل کر رہی ہیں ان کے لیے اس معطلی کا برا اثر پڑ رہا ہے۔
ایک 22 سالہ طالبہ جو آن لائن کورسز پڑھاتی ہے اس نے بتایا کہ روزگار کے مواقع کم ہو گئے ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
افغان خواتین کی تعلیمی صورتحال اب اہم ترین مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ امدادی پروگرامز کے معطل ہونے سے ان خواتین کے لیے تعلیمی حصول کا دروازہ بند ہو رہا ہے۔
ایک اور تنظیم “افغان فی میل اسٹوڈنٹ آؤٹ ریچ” جو نجی امداد پر کام کرتی ہے اب بڑھتی ہوئی طلب کا مقابلہ کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔
اس تنظیم کی رہنما ‘لوسی فیرس’ نے بتایا کہ طالبات شدید خوف میں مبتلا ہیں اور انہیں لگ رہا ہے کہ ان کی محنت ضائع ہو جائے گی۔
یہ صورتحال افغان خواتین کے لیے ایک سخت امتحان ہے، جہاں امیدیں ختم ہو رہی ہیں اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔
مزید پڑھیں: حماس کل 6 یرغمالیوں کے بدلے 600 بے گناہ فلسطینی قیدی آزاد کروائے گی