اسرائیل نے ماہ رمضان کے دوران مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے عالمی سطح پر تنقید کی لہر دوڑ گئی ہے۔
اسرائیلی حکومت نے رمضان میں مسجد اقصیٰ کے لیے مخصوص عمر اور دیگر شرائط عائد کر دی ہیں، جن کا مقصد فلسطینیوں کے عبادت کے حق کو محدود کرنا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق صرف 55 سال یا اس سے زائد عمر کے مرد، 50 سال سے بڑی خواتین اور 12 سال یا اس سے کم عمر کے بچے مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے داخل ہو سکیں گے۔
اس فیصلے کے مطابق غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں سے رہا ہو کر مغربی کنارے پہنچنے والے فلسطینیوں کو بھی مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس کے علاوہ فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ جانے کے لیے اسرائیلی حکام سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا۔ رمضان میں نماز جمعہ کے لیے مسجد اقصیٰ میں صرف 10 ہزار افراد کو داخلے کی اجازت دی جائے گی، جو ایک بڑی تشویش کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ اقدام اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے مذہبی حقوق پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہے جس سے رمضان کے مقدس مہینے میں مذہبی عبادات کے حوالے سے کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے۔