سابق امریکی وزیر خارجہ ‘مائیک پومپیو’ نے پیر کو ایران کے خلاف نئے اقدامات کا اعلان کیا جس نے عالمی سطح پر تیل کی منڈی میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔
امریکا نے ایران سے تیل خریدنے والے ملکوں کو دی جانے والی استثنی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پانچ ملکوں نے مئی تک ایران سے تیل کی خریداری بند نہ کی تو ان پر امریکی اقتصادی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔
ان پانچ ملکوں میں چین، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی شامل ہیں اور اگر انہوں نے امریکی فیصلہ تسلیم نہ کیا تو عالمی تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
یہ فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد آیا ہے اور اس کا اثر نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیا جائے گا۔
پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکا کا مقصد ایران کو اُس پیسے سے محروم کرنا ہے جسے وہ مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔
ان کے مطابق ایران کی حکومت نے گزشتہ چار دہائیوں میں تیل کی دولت کا استعمال دہشت گردی کی فنڈنگ اور عالمی امن کے لیے خطرہ بننے کے لیے کیا ہے۔
ضرور پڑھیں:اسرائیل کا رمضان میں فلسطینیوں کی مسجد اقصیٰ میں داخلے پر نئی پابندیاں لگانے کا فیصلہ
یہ معاملہ ایک سال قبل اُس وقت شروع ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکلنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں اور ایران کے تیل کی برآمدات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، امریکا نے جب ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کو عارضی طور پر استثنیٰ دیا تو ان ممالک میں چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، ترکی، اٹلی، یونان اور تائیوان شامل تھے۔
ان میں سے تین ممالک اٹلی، یونان اور تائیوان نے متبادل ذرائع تلاش کر لیے تھے لیکن چین اور امریکا کے اتحادی ملکوں انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی نے ایران سے تیل خریدنا جاری رکھا۔
امریکا نے حالیہ فیصلے کے ذریعے ان ممالک پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ 2 مئی تک ایران سے تیل خریدنا بند کر دیں، ورنہ ان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد ہوں گی۔
پومپیو کے اعلان کے بعد عالمی تیل کی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ایران کی تیل کی برآمدات میں روزانہ 13 لاکھ بیرل کا حصہ ہے، اور اس کی برآمدات کی مقدار اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
ایرانی تیل کی ترسیل میں دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایرانی تیل بردار جہاز اپنے ٹرانسپونڈر بند کر دیتے ہیں جس سے یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ تیل کہاں سے آ رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے۔
امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ایران کی تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پیداوار بڑھانے کی درخواست کی ہے لیکن ماہرین کے مطابق یہ دونوں ممالک اس کمی کو مکمل طور پر پورا نہیں کر سکتے۔
عالمی سطح پر تیل کی فراہمی میں خلل پڑنے کی صورت میں قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جو کہ عالمی معیشت پر بھی اثرانداز ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ انتظامیہ کا USAID کے 3,600 ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ
ایران کے ردعمل کے امکانات بھی عالمی سطح پر تشویش کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایران نے کئی بار آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے جس سے نہ صرف ایران بلکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تیل کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ آبنائے ہرمز ایک انتہائی اہم تجارتی راستہ ہے، جس کے ذریعے عالمی تیل کی ایک بڑی مقدار دنیا کے مختلف حصوں تک پہنچتی ہے۔
ایران کی طرف سے اس آبی گزرگاہ کو بند کرنے کی دھمکی اس لیے زیادہ سنجیدہ سمجھی جا رہی ہے کہ اس راستے کا کنٹرول ایران کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے لیے آبنائے ہرمز کو بند کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
ایران کی اپنی برآمدات بھی اس راستے سے گزرتی ہیں اور اس کو بند کرنے سے ایران خود اپنے تجارتی راستوں کو محدود کر لے گا۔
اس کے علاوہ ایران کی اس دھمکی سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایران پر حملہ کرنے کا جواز مل سکتا ہے جس سے ایران کو سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امریکا کی طرف سے عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں ایرانی معیشت پر سنگین اثرات ڈال رہی ہیں۔ ایران کی معیشت گزشتہ برس 6 فیصد سکڑنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا اور اس کے شہریوں کو ضروریات زندگی کے لیے 47 فیصد زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔
ایرانی عوام افراط زر اور بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں جو کہ ان کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔
امریکا کا ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ نہ صرف مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھا رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا بھی باعث بن رہا ہے۔
ایران کی معیشت کی حالت اور عالمی منڈی پر اثرات، خاص طور پر تیل کی فراہمی میں خلل کے امکانات، ایک اہم چیلنج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایران کی ممکنہ کارروائیاں اور امریکی ردعمل، عالمی تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایران اور اس کے اتحادی کیسے اس بحران سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کہاں تک پہنچتی ہیں۔
مزید پڑھیں: انڈیا اور برطانیہ تجارتی مذاکرات: دونوں ممالک کا اگلی دہائی میں دوطرفہ تجارت کو دوگنا کرنے کا عزم