اپریل 7, 2025 8:35 شام

English / Urdu

Follw Us on:

رمضان المبارک: برکتوں کا مہینہ مگر قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں؟

مادھو لعل
مادھو لعل

روزہ ارکانِ اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج پہلا روزہ ہے۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ عبادت، رحمت اور برکت کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں یہ مہینہ اپنے ساتھ محض خوشیاں اور برکت ہی نہیں، بلکہ بے تحاشا مہنگائی بھی لاتا ہے۔

اس سال بھی پاکستان بھر میں یہ مہینہ مہنگائی کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ ملک بھر میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

رمضان کے آتے ہی حکومت سبسڈی اور اشیائے خورونوش سستی کرنے کا اعلان کرتی ہے، مگر بازاروں میں ہر چیز کا دام دگنا ملتا ہے، جس کی وجہ سے عام عوام یہ سوال کرتی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یک لخت مہنگائی کا پہاڑ اس مقدس مہینے میں ان پر مسلط ہو جاتا ہے؟

اگر بات کی جائے اس کی وجوہات کی تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان کے دوران مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں طلب اور رسد میں عدم توازن، ذخیرہ اندوزی، حکومتی کنٹرول کی کمی اور عوامی بے بسی شامل ہیں۔ اس مقدس مہینے میں اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض تاجر مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ قیمتیں بڑھائی جا سکیں۔

ماہرِ معاشیات پروفیسر ڈاکٹر خرم فرید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ رمضان میں مہنگائی کا زیادہ تعلق مصنوعی قلت سے ہوتا ہے۔ تاجر جان بوجھ کر اشیاء کی قیمتیں بڑھاتے ہیں تاکہ زیادہ منافع کما سکیں، حالانکہ رسد اور طلب میں اتنا بڑا فرق نہیں ہوتا کہ قیمتیں بے قابو ہو جائیں۔

ذخیرہ اندوزی کے ذریعے منافع خور تاجر اشیاء کو ذخیرہ کرکے قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں، جب کہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ عوام مہنگائی کے باوجود خریداری پر مجبور ہوتے ہیں، جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔

ذخیرہ اندوزی کے ذریعے منافع خور تاجر اشیاء کو ذخیرہ کرکے قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں

یوں تو رمضان میں تقریباً ہر چھوٹی بڑی چیز مہنگی ہو جاتی ہے، مگر چند اشیاء کی قیمتوں کو تو جیسے پَر لگ جاتے ہیں، جیساکہ کھجور، چینی اور پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔

دوسری جانب آڑھتی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بے جا ٹیکسز، بڑھتے ہوئے کسٹم ڈیوٹیز، دکانوں کے کرائے اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو قرار دیتے ہیں، مگر غریب عوام کا کوئی نہیں سوچتا۔

مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر  غریب اور سفید پوش طبقہ ہوتا ہے، جن کے لیے افطاری کا سامنا خریدنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم پروفیسر علی نے کہا ہے کہ رمضان میں مہنگائی سب سے زیادہ غریب اور متوسط طبقے کو متاثر کرتی ہے۔ وہ اشیائے خورونوش کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور اکثر غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سے ان کی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

حکومت نے رمضان المبارک کے دوران عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے 20 ارب روپے مالیت کے رمضان ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے، جس کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ اس بار عوام کو ریلیف ملے گا، مگرماضی کے ریلیف پیکجز پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان بازار اور سستا بازار کی حقیقت عوام کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی۔

ڈاکٹر خرم فرید کے مطابق حکومت رمضان میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور سستے بازار قائم کرتی ہے،  لیکن یہ اقدامات عموماً کاغذی ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا اور بڑے تاجر ان قوانین سے بچنے کا راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔

مزید یہ کہ رمضان بازار ایک اچھا اقدام ہے مگر اس کا دائرہ محدود ہے۔ زیادہ تر افراد عام بازاروں پر ہی انحصار کرتے ہیں جہاں قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر یہ ماڈل پورے ملک میں مؤثر طریقے سے لاگو کیا جائے تو عوام کو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔

پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور ان کی عدم فعالیت کی وجہ سے قیمتوں میں استحکام نہیں آ سکا، جب کہ سبسڈی کے اعلانات اور عملی صورتِ حال میں فرق کی وجہ سے عوام کو مطلوبہ ریلیف نہیں مل سکا۔

ماضی میں بھی حکومت نے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کیا، لیکن عملی طور پر کتنی شکایات درج ہوئیں، کتنے جرمانے اور گرفتاریاں ہوئیں اور عدالتی اور قانونی نظام کس حد تک مؤثر ثابت ہوا؟ یہ سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں۔

ماہرِ معاشیات نے کہا ہے کہ پاکستان میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف قوانین موجود ہیں، جن کے تحت بھاری جرمانے اور سزائیں دی جا سکتی ہیں، مگر سیاسی دباؤ اور انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے ان قوانین پر سختی سے عمل نہیں ہوتا۔ اس سے منافع خوروں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔

پروفیسر شفاقت علی کا کہنا ہےکہ حکومت جو سبسڈی دیتی ہے وہ عام طور پر ناکافی ہوتی ہے اور اکثر اوقات مستحق افراد تک تو پہنچ ہی نہیں پاتی۔ بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے رمضان پیکجز کا زیادہ فائدہ مخصوص طبقے اٹھا لیتے ہیں اور غریب طبقہ بدستور مہنگائی کی چکی میں پستہ رہتا ہے۔

سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے مہنگائی کے خلاف ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے، مگر اس کا فائدہ ابھی تک دیکھا نہیں گیا۔

ماہرِ تعلیم پروفیسر شفاقت علی کا کہنا تھا کہ میڈیا اس مسئلے کو اجاگر تو کرتا ہے مگر بعض اوقات یہ خبریں وقتی سنسنی تک محدود رہتی ہیں۔ اگر میڈیا تسلسل کے ساتھ منافع خوروں کے خلاف مہم چلائے اور حکومت پر دباؤ ڈالے تو صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے۔

جون 2024ء سے اب تک مجموعی طور پر شرح سود میں 10 فیصد کی کمی ہو چکی ہے۔ (فوٹو: دی میڈیا لائن)

اسلام میں ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق منافع خوری کے خلاف سخت احکامات موجود ہیں، اس لیے تاجر برادری کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے مناسب منافع رکھنا اور قیمتیں اعتدال پر رکھنی چاہئیں۔

پروفیسر شفاقت علی نے کہا ہے کہ اسلام میں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری حرام ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایسے تاجروں پر سخت وعید سنائی ہے جو لوگوں کی ضروریات کی اشیاء مہنگی کر کے ان کا استحصال کرتے ہیں۔

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات کرنے چاہئیں، جیسے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی۔

دوسری جانب عوام کوبھی  غیر ضروری خریداری سے گریز کرنا چاہیے تاکہ طلب اور رسد میں توازن برقرار رہے۔ سوشل ویلفیئر اداروں کو غریبوں کے لیے مفت دسترخوان اور راشن پروگرام کا انعقاد کرنا چاہیے۔ تاجر برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مناسب منافع رکھیں اور قیمتیں اعتدال پر رکھیں۔

ڈاکٹر خرم فرید کا کہنا ہے کہ اگر عوام شعور حاصل کریں اور غیر ضروری خریداری سے گریز کریں تو منافع خوروں پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ صارفین کو پرائس کنٹرول ہیلپ لائنز پر شکایات درج کروانی چاہئیں تاکہ کارروائی ممکن ہو سکے۔

ماہرِ تعلیم شفاقت علی کے مطابق حکومت کو رمضان سے پہلے سخت پرائس کنٹرول نافذ کرنا چاہیے۔ تاجروں کو منافع کی حد مقرر کرنی چاہیے۔ عوام کو غیر ضروری خریداری سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر سب مل کر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ویسے تو رمضان رحمت اور برکت کا مہینہ ہے، لیکن مصنوعی مہنگائی اس کے تقدس کو متاثر کر رہی ہے۔ حکومت، عوام اور کاروباری طبقے کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے رمضان کو حقیقی معنوں میں برکت کا مہینہ بنانا ہوگا۔ہم سب کو مل کر اس حرام خوری اور منافع خوری کو معاشرے سے ختم کرنا ہوگا، ورنہ روزہ رکھ کر منافع خوری کرنے سے روزے کا کوئی فائدہ نہیں۔

 

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس