Follw Us on:

مصر کا متبادل منصوبہ: غزہ کے لیے ٹرمپ کے “ریوریا” کا مقابلہ، حماس کو نظرانداز کرنے کی کوشش

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Egypt president
مصر کا متبادل منصوبہ: غزہ کے لیے ٹرمپ کے "ریوریا" کا مقابلہ، حماس کو نظرانداز کرنے کی کوشش

مصر نے غزہ کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس کا مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ریوریا کے منصوبے کو چیلنج کرنا ہے، جس میں غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔

مصر کا یہ منصوبہ حماس کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے عرب، مسلم اور مغربی ریاستوں کے تحت عارضی حکومتی اداروں کے ذریعے چلانے کا خواہاں ہے، جو غزہ کی تعمیر نو اور انسانی امداد کے لیے ذمہ دار ہوں گے۔

یہ منصوبہ، جو آئندہ عرب لیگ کی سربراہی اجلاس میں پیش کیا جائے گا، ابھی تک عوامی نہیں کیا گیا تھا مگر عالمی خبر رساں اادارے ‘رائٹرز’ کو اس کے مسودے تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔

رائٹرز کے مطابق مصر کا منصوبہ واضح طور پر یہ بیان کرتا ہے کہ غزہ کے موجودہ حاکم گروہ، حماس، کو حکومت میں کوئی کردار نہیں دیا جائے گا۔ اس کے بجائے ایک عارضی “گورننس اسسٹنس مشن” قائم کیا جائے گا جو حماس کی حکومت کا متبادل ہوگا اور اس کا مقصد غزہ کی تعمیر نو اور امداد فراہم کرنا ہوگا۔

مصر کے منصوبے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حماس کے غزہ میں تسلط کے باوجود، کوئی بھی عالمی فنڈنگ غزہ کی بحالی کے لیے فراہم نہیں کی جائے گی۔

اس بات کا مقصد یہ ہے کہ حماس کے زیر تسلط علاقے میں عالمی امداد نہیں پہنچ پائے گی جس کے نتیجے میں غزہ کی معیشت اور سوسائٹی کی ترقی کو مشکل بنانا ہے۔

مزید پڑھیں: ویانا کے مرکزی ٹرین اسٹیشن پر بم کی دھمکی کے بعد پولیس کا بڑا آپریشن

مصر کی تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدر ٹرمپ نے ایک متنازعہ منصوبہ پیش کیا تھا جس میں غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کی بات کی گئی تھی۔

اس منصوبے کی فلسطینیوں اور عرب ممالک کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی، جس کے بعد مصر اور دیگر عرب ممالک جیسے اردن اور خلیجی ریاستیں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیزی سے ایک نیا سفارتی محاذ تشکیل دے رہی ہیں۔

اس منصوبے میں غزہ کے لیے حکومتی ڈھانچہ کا واضح طور پر تعین نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس بات کا ذکر ہے کہ حماس کو کیسے قابو کیا جائے گا۔ تاہم، یہ منصوبہ ایک ایسے عارضی حل کی پیش کش کرتا ہے جو غزہ میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہو سکتا ہے۔

مصر کی تجویز میں ایک “بین الاقوامی استحکام فورس” بھی شامل ہے جو غزہ میں سکیورٹی فراہم کرے گی اور تمام فریقوں کے درمیان امن قائم رکھنے کی کوشش کرے گی۔

اس فورس کا مقصد حماس اور دوسرے مسلح گروپوں کے درمیان طاقت کے توازن کو متاثر کرنا اور علاقے میں وسیع پیمانے پر امن قائم کرنا ہے۔

مصر کا یہ اقدام اس بات کا غماز ہے کہ مصر اور دیگر عرب ممالک غزہ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک نیا اور ممکنہ طور پر مؤثر راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ سوال ابھی تک حل طلب ہے کہ آیا عرب رہنما اس منصوبے کو حمایت دیں گے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی جج نے ٹرمپ کے واچ ڈاگ ایجنسی کے سربراہ کو برطرف کرنے کا حکم غیر قانونی قرار دے دیا

اس کے بعد حماس نے مصر کے اس منصوبے کو مسترد کرنے کی دھمکی دی ہے، اور اس کا موقف ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔

حماس کا کہنا ہے کہ یہ تجویز فلسطینی عوام کی مرضی کے خلاف ہے اور انہیں اپنا مستقبل خود طے کرنے کا حق ہونا چاہیے۔

یہ مسودہ مصر کی جانب سے اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ وہ غزہ میں نئی حکومتی ترتیب قائم کرنے کے لیے عالمی اور عرب ممالک کے تعاون کو اہم سمجھتا ہے، اور یہ کہ حماس کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

تاہم، یہ سوال باقی ہے کہ کیا یہ منصوبہ غزہ میں امن قائم کر پائے گا یا کہ یہ مزید پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔

مصر کا منصوبہ، جو عالمی سطح پر ایک بڑی سفارتی جنگ کا حصہ بن چکا ہے، اب عرب لیگ کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ اس منصوبے کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ عرب ممالک اور عالمی برادری کس طرح اس کی حمایت کرتی ہے اور اس میں شامل ہوتی ہے۔

غزہ کے مستقبل کی چابی ان بین الاقوامی تعلقات اور حکمت عملیوں میں چھپی ہوئی ہے جو اس بحران کے حل کی سمت متعین کریں گی۔

لازمی پڑھیں: ویلیسا کا ٹرمپ کو خط: زیلنسکی کے ساتھ تنازعے پر گہرے افسوس کا اظہار

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس