Follw Us on:

پاکستان میں دہشتگردی واقعات دوبارہ کیوں بڑھنے لگے، چشم کُشا انکشافات

حسیب احمد
حسیب احمد
سیکیورٹی فورسز 13 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئیں (تصویر، گوگل)

پاکستان میں دہشتگردی کی لہر  میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے، آئے روز سیکیورٹی فورسز اور اہم اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، حال ہی میں شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے ساتھ جھڑپ میں 4 جوانوں نے جام شہادت نوش کر لیا، جبکہ سرحدی چوکیوں پر حملہ کرنے والے 13 دہشتگرد بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔

شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ میں آدھی رات کو ہونے والی جھڑپوں کے دوران متعدد سیکیورٹی چوکیوں پر حملہ کرنے والے کم از کم 13 دہشت گرد بھی مارے گئے۔

رات کو ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے اسپالگا، گوش، ٹپی، باروانا، پیپانا لوئر اور پپانا ٹاپ کی 6 سیکیورٹی چوکیوں پر بیک وقت حملہ کیا، چیک پوسٹوں پر تعینات فوجیوں نے اس حملے کا موثر جواب دیا۔

ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز 13 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوگئیں جبکہ متعدد مبینہ طور پر زخمی ہوگئے، باقی دہشت گرد اندھیرے کی آڑ میں اپنے ساتھیوں کی لاشیں لے کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

شہید اور زخمی سیکیورٹی اہلکاروں کو میرانشاہ ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کر دیا گیا جبکہ شدید زخمیوں کو بنوں کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس دوران اضافی دستے علاقے میں پہنچ گئے اور دہشت گردوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق افغانستان کی سرحد سے متصل شمالی وزیرستان میں گزشتہ چند ماہ کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے سیکیورٹی اہلکاروں پر بار بار حملے کیے گئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ہی ایک خودکش بمبار نے عیدک کے علاقے میں یک کار ان کے قافلے سے ٹکرا دی تھی جس کے نتیجے میں دو فوجی شہید ہو گئے تھے۔اس حملے میں 2 شہریوں سمیت کم از کم 10 افراد زخمی ہوئے جس سے گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔

اس سے قبل 24 فروری کو شمالی وزیرستان کی تحصیل اسپن وام میں ایک چیک پوسٹ پر حملے میں 4 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے تھے۔28 فروری کو آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ غلام خان کالے کے علاقے میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں 6 دہشت گرد مارے گئے۔

فروری میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران 156 دہشت گرد مارے گئے اور 66 کو گرفتار کیا گیا، یہ تعداد دسمبر 2023 میں مارے گئے 139 دہشت گردوں کے بعد سب سے زیادہ ہے۔گرفتار شدگان میں سے زیادہ تر، 50 گرفتاریاں سابقہ فاٹا کے علاقے سے کی گئیں جبکہ 16 کا تعلق پنجاب سے تھا۔

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس