ترکی، جو نیٹو میں امریکا کے بعد سب سے بڑی فوجی طاقت رکھتا ہے، انہوں نے یوکرین کے تنازعہ میں اپنی ممکنہ فوجی شرکت کے بارے میں بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔
ایک ترک دفاعی وزارت کے ذریعے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق، ترکی یوکرین میں قیام امن کے لئے کسی بھی ضروری فوجی مشن میں حصہ ڈالنے کو تیار ہے، تاہم اس بات کا فیصلہ مختلف فریقوں کی مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
ترکی کا کہنا ہے کہ اگر کوئی امن معاہدہ طے پاتا ہے اور اگر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ترکی کا کردار خطے میں امن اور استحکام کی بحالی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے تو وہ اس پر غور کرے گا۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات ابھی ابتدائی سطح پر ہے اور اس پر کسی قسم کی حتمی فیصلہ سازی نہیں ہوئی ہے۔
ترکی کے اس ممکنہ اقدام نے عالمی سطح پر تشویش اور دلچسپی کی لہر پیدا کر دی ہے کیونکہ یورپ کی بڑی فوجی طاقتیں، برطانیہ اور فرانس، پہلے ہی یوکرین میں ایک ممکنہ امن مشن کے لیے اپنے فوجی دستے بھیجنے کی بات کر چکی ہیں، جبکہ امریکا نے اس طرح کی کسی بھی مشن میں شریک ہونے سے انکار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دہشتگرد شریف اللہ کی گرفتاری پاکستانی اور امریکی حکام کے تعاون سے ممکن ہوئی
یوکرین کی حکومت کی جانب سے بھی مسلسل کہا جا رہا ہے کہ کسی بھی امن معاہدے کے لیے ایک مضبوط فوجی موجودگی ضروری ہوگی تاکہ فریقین کے درمیان کوئی اتفاق امن کی حالت میں قائم رہ سکےس۔
اس بات کو مزید پیچیدہ بناتے ہوئے، روس نے NATO کے کسی بھی فوجی دستے کی یوکرین میں تعیناتی کی مخالفت کی ہے۔ لیکن، امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حالیہ بیانات میں کہا ہے کہ ان کے خیال میں روس یوکرین میں غیر ملکی فوجی مشن کے لئے رضامند ہو سکتا ہے۔
ترک ذرائع نے بتایا کہ اگر ترکی نے اس مشن میں شرکت کی تو اس کا آغاز غیر جنگی فورسز کی تعیناتی سے ہوگا تاکہ یوکرین اور روس کے درمیان کسی بھی ممکنہ جنگ بندی کی نگرانی کی جا سکے۔
اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ صدر طیب اردگان نے حال ہی میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں، جس میں ممکنہ فوجی مشن پر بات چیت کی گئی۔
یاد رہے کہ ترکی نے اس تنازعہ کے دوران ایک غیر جانبدار موقف اپنایا ہے اور روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
ترکی نے روس کے خلاف مغربی پابندیوں میں شرکت سے گریز کیا ہے اور اس نے یوکرین اور روس کے درمیان کئی اہم مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کیا ہے جن میں بحیرہ اسود سے یوکرین کی گندم کی برآمدات کی اجازت دینے کے لیے ایک معاہدہ بھی شامل ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی کی اس ممکنہ فوجی مشن میں شرکت کے فیصلے سے یوکرین کے تنازعہ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوتی ہے یا عالمی سطح پر ایک نیا تناؤ جنم لیتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاک افغان سرحد سے گرفتار دہشتگرد امریکی عدالت میں پیش، کس کس حملے میں ملوث رہا؟