امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اپنے کابینہ کے ارکان کو واضح طور پر بتایا کہ عملے کی کمی اور حکومتی پالیسیوں پر حتمی فیصلہ وہ خود کریں گے نہ کہ ایلون مسک.
ایک ذریعہ جسے اس معاملے کی تفصیلات کا علم تھا اس نے عالمی خبررساں رائٹرز کوبتایا کہ صدر ٹرمپ نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ایلون مسک کی “ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی” صرف مشاورتی کردار ادا کرے گی۔
اس اجلاس میں ایلون مسک بھی موجود تھے اور انہوں نے کابینہ کو بتایا کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔
تاہم، اجلاس کے دوران یہ واضح ہوا کہ وائٹ ہاؤس کے کچھ حکام اور ایجنسی کے سربراہان نے مسک کے انداز کو سخت اور بے تکلف سمجھا ہے خاص طور پر جب بڑی تعداد میں ملازمین کی برطرفیوں اور پالیسی تبدیلیوں کا سامنا ہوا۔
ایک اطلاع کے مطابق وائٹ ہاؤس کے عملے کے سربراہ ‘سوزی وائلز’ کو مختلف حکومتی اداروں سے شکایات موصول ہو رہی تھیں جن میں ‘ریپبلکن اراکین کانگریس’ بھی شامل تھے۔
ان اراکین نے اپنی شکایات میں کہا کہ ‘مسک’ کی حکمت عملی نہ صرف بے رحمانہ تھی بلکہ اس سے عوام میں بھی بے چینی بڑھ رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی قبول نہیں، چینی وزیر خارجہ
ٹرمپ نے اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “مجھے نتائج چاہئیں، لیکن میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ اچھے اور قابل لوگوں کو بچایا جائے۔”
ان کا یہ بیان ‘اوول آفس’ میں صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران سامنے آیا جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایلون مسک نے بہت جلد عمل کیا ہے؟ ٹرمپ نے جواب دیا کہ “مجھے نہیں لگتا۔ مسک سب کو بتا رہے ہیں کہ اخراجات کیسے کم کیے جا سکتے ہیں۔”
اس اجلاس کا مقصد مسک کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا اور حکومتی سطح پر عملے کی کمی کے عمل کو بہتر انداز میں چلانا تھا۔
اس سے قبل ٹرمپ کی کابینہ کے اراکین نے شکایت کی تھی کہ مسک کا انداز زیادہ جارحانہ اور فوری تھا جس کے نتیجے میں 23 لاکھ افراد پر مشتمل وفاقی ملازمین کی تعداد میں 100,000 سے زیادہ کی کمی کی گئی ہے۔
اس کمی نے بہت سے اہم محکموں میں عملے کی کمی پیدا کر دی ہے جن میں جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی اور پرندوں کی فلوں کی تحقیق شامل ہیں۔
لازمی پڑھیں: جابلہ میں خونریز حملے نے شام میں حکومت کے خلاف تشویش اور کشیدگی بڑھا دی
ایجنسیوں میں عملے کی کمی کی صورت حال اتنی سنگین ہو گئی تھی کہ حکومت کو متعدد ملازمین کو دوبارہ بھرتی کرنا پڑا اور خاص طور پر ان محکموں میں جہاں حساس تحقیقات یا ملک کی سیکیورٹی کے معاملات زیر بحث تھے۔
اس کے علاوہ یونین اور دیگر حمایتی گروپوں کی جانب سے مسک کی پالیسیوں کے خلاف 30 سے زائد مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔
ٹرمپ نے جمعرات کے اجلاس میں اپنے کابینہ کے ارکان کو بتایا کہ انہیں صرف “ہتھوڑے” کے بجائے “چاقو” کے ذریعے عملے کی کمی کرنی چاہیے۔
مسک نے گزشتہ ماہ کنزرویٹیو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس میں ایک چین ساؤن کے ساتھ اسٹیج پر آ کر حکومت کے اخراجات کو کم کرنے کی اپنی شدید خواہش کا اظہار کیا تھا۔ تاہم، یہ کابینہ اجلاس مسک کے لئے ایک چیلنج کی صورت میں سامنے آیا، جہاں صدر نے ان کے طریقے کو کچھ حد تک قابو کرنے کی کوشش کی۔
کابینہ کے اجلاس کے دوران مسک کے ایک ای میل نے تنازعہ کھڑا کر دیا تھا جس میں انہوں نے تمام وفاقی ملازمین سے کہا تھا کہ وہ اپنی ہفتہ وار کامیابیوں کی فہرست فراہم کریں، ورنہ ان کی غیر موجودگی کو استعفیٰ سمجھا جائے گا۔
ضرور پڑھیں: ایلن مسک کا مریخ مشن:خلائی جہاز ایک مرتبہ پھر خلا میں پھٹ گیا
اس ای میل نے مختلف محکموں میں مایوسی اور الجھن کی صورتحال پیدا کر دی تھی، جس کے نتیجے میں کچھ محکموں نے ملازمین کو جواب دینے کی ہدایت کی، جب کہ دوسرے محکموں نے انہیں اس مطالبے سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔
وائٹ ہاؤس کے داخلی ذرائع کے مطابق یہ ای میل ایک اور یاد دہانی تھی کہ مسک کا انداز بہت سخت اور بیچ بیچ میں متنازعہ ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے کہا کہ مسک کو اخراجات میں کمی کی حکمت عملی میں ان کی مہارت کا فائدہ اٹھانا ضروری ہے، لیکن ان کے طرزِ عمل کو کابینہ کے ارکان کی تجاویز اور خیالات کے مطابق ڈھالنا بھی ضروری ہے۔
ٹرمپ کا یہ قدم جس میں وہ مسک کی پالیسیوں کو کابینہ کے ارکان کی مشاورت کے ساتھ توازن میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنے صدرات کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے تمام اداروں میں ہمواری اور توازن قائم رکھنے کے لئے پوری کوشش کریں گے۔
مزید پڑھیں: مفت میں نیٹو کا دفاع نہیں کریں گے: ٹرمپ کا اعلان