Follw Us on:

پاکستان میں عورت مارچ میں مقاصد کیا ہیں؟

افضل بلال
افضل بلال
ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا دن منایا جاتا ہے(تصویر: فائل)

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج 8 مارچ کو ہر سال کی طرح  عالمی یومِ خواتین منایا جارہا ہے، مگر پاکستان میں 2 مختلف قسم کے مارچ دیکھنے کو ملتے ہیں ایک کو حیا تو دوسرے کو عورت مارچ کہا جاتا ہے۔

ایک کے سپورٹر دوسرے کے ناقدین ہیں اور اتنے برے کے ایک دوسرے پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ ان کی آپس میں بحث بارہا بار دیکھی گئی ہیں۔

ملک کے بڑے شہروں میں آج عورت مارچ کی گونج سنائی دے رہی ہے، جہاں حقوق کی جدوجہد میں شریک خواتین اور ان کے حامی اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کررہے ہیں۔ لیکن یہ مارچ ایک بار پھر متنازعہ نعروں، روایتی مخالفت اور مختلف سماجی حلقوں کی تنقید کے بیچ منعقد ہو رہا ہے۔

جماعت اسلامی خواتین ونگ کی ترجمان ثمینہ سعید نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “عورت مارچ کوئی تحریک نہیں ہے یہ چند خواتین ہیں جو ایک خاص ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں۔ ان کو خواتین کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کو ایک خاص طبقے کو پریزنٹ کرنا ہے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہیں”۔

انہوں نے مزید کہا کہ “ان کے اندر بہت سارے دوسرے گروپ بھی شامل ہو چکے ہیں۔ لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کی خواتین کی نمائندہ خواتین نہیں ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی نمائندہ خواتین تو خواتین کے حقوق کے لیے منظم جدوجہد اور تحریک بھی چلا رہی ہیں”۔

جماعت اسلامی کی خواتین حیا مارچ کے نام سے ریلیز کا اہتمام کرتی ہیں (تصویر: جماعت اسلامی )

پاکستان میں عورت مارچ کا آغاز 2018 میں ہوا، جب چند سماجی کارکنوں اور حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم تنظیموں نے خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ پہلے ہی سال یہ تحریک توجہ کا مرکز بن گئی۔

عورت مارچ کی سرگرم رکن زینب ملک نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” عورت مارچ نے گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی، جبری شادی، کام کی جگہ پر استحصال، اور خواتین کے دیگر بنیادی حقوق جیسے موضوعات کو اجاگر کیا ہے۔ اس مارچ کے ذریعے وہ مسائل قومی سطح پر زیر بحث آتے ہیں جن پر عام طور پر بات نہیں کی جاتی”۔

جیسے جیسے عورت مارچ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، ویسے ویسے اس پر اعتراضات اور تنازعات بھی بڑھتے گئے۔ اس حوالے سے ثمینہ سعید کا کہنا ہے کہ ” یہ جو آٹھ مارچ میں عورت مارچ کیا جاتا ہے تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ عورت مارچ کرنے والی دو پرسنٹ خواتین بھی نہیں ہیں جو یہ والا سیگمنٹ کرتی ہیں۔ اصل میں تو اس ملک کے اندر خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی اگر خواتین ہیں تو وہ ہلکا خواتین جماعت اسلامی پاکستان ہے۔ جو اپنے یعنی کہ وسائل کے اندر وہ خواتین کی ایجوکیشن خواتین کی صحت خواتین کو قانونی لحاظ سے جو ان کو معاونت چاہیے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “جماعت اسلامی جیلوں کے اندر اور یہ جو سٹریٹ چائلڈ ہیں ان کے لیے بیٹھک سکول کے نام سے ادارے قائم کر رہی ہے۔ یہ دین اور دنیا کی تعلیم جامعۃ المسنات کے ذریعے دے رہی ہے۔ یہ نوجوانوں کو مایوسی سے نکالنے کے لیے جے آئی یوتھ کا پلیٹ فارم دے رہی ہے۔ اصل میں تو پاکستان کے اندر خواتین کے حقوق کی جنگ لڑنے والی اگر کوئی تنظیم ہے، اگر کوئی جماعت ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ یہ صرف آٹھ مارچ کا دن نہیں منا رہے”

ثمینہ سعید نے مزید کہا کہ “جماعت اسلامی پورا سال خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے خواتین پر ہونے والے ظلم کے خلاف خواتین کے حقوق کی علمبردار ہے۔ یہ عملی طور پر ظلم کی شکار خواتین کے حقوق جو ان کو نہیں ملتے وہ قانونی لحاظ سے معاشی لحاظ سے معاشرتی لحاظ سے ان کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔ ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ جہیز کا مسئلہ ہو، خواتین کی وراثت کا مسئلہ ہو، خواتین کی تعلیم کا مسئلہ ہو، خواتین کو قانونی رہنمائی چاہیے تو اس کے لیے ان کا لائنز فورم ہے وہ خواتین کی رہنمائی کرتا ہے۔

ہر سال کی طرح اس بار لاہور میں عورت مارچ نہیں ہوا (تصویر: فائل)

جماعت اسلامی کی خدمات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ” جماعت اسلامی گوشہ عافیت ہے جہاں پر نادار اور بے گھر خواتین کو جائے پناہ دی جاتی ہے۔ دراصل یہ تصور بھی دینے کی ضرورت ہے کہ خواتین کو اور پاکستان کی خواتین یہ سمجھتی بھی ہیں۔ یہ دو فیصد خواتین جس بنیاد کے اوپر یا جس رد عمل کے طور پر یہ مارچ وغیرہ کرتی ہیں وہ پاکستانی عورت کی نمائندگی نہیں کر رہیں۔ پاکستان کی عورت کی اگر کوئی نمائندہ خواتین ہیں تو وہ جماعت اسلامی کی خواتین ہیں۔ اس لحاظ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک دن منا لینے سے خواتین کو حقوق نہیں ملیں گے خواتین کو حقوق دلانے کے لیے منظم جدوجہد کرنی پڑے گی جو جماعت اسلامی کر رہی ہے”۔

9 مارچ 2020 کا دن تھا جب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے مقام پر عورت مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ مگر وہیں اسی مقام پر مذہبی جماعتوں کی جانب سے حیاء مارچ کے سلسلے میں ریلی بھی نکالی گئی۔ جب عورت مارچ ڈی چوک کی جانب بڑھا تو اس پر حملہ بھی ہوا۔ یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ جس دن عورت مارچ کی ابتدا ہوئی اسی دن سے یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔

عورت مارچ کی سرگرم رکن زینب ملک کے نزدیک ” عورت مارچ کا بیانیہ خواتین کے حقوق کے لیے ہے، اور یہ نعرے معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ ان کو غلط سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیانیہ غلط ہے، بلکہ اس کی وضاحت اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔”

عالمی یومِ خواتین کے موقع پر پاکستان میں بھی کئی دہائیوں سے مختلف تقریبات منعقد ہوتی رہی ہیں، لیکن عورت مارچ نے ایک منظم عوامی احتجاج کی شکل اختیار کر کے نئی روایت قائم کی ہے۔

ثمینہ سعید کا ماننا ہے کہ ” سب سے پہلے تو یہ کہ ہمارے ملک کے اندر خواتین کے جو اسلام کے عطا کردہ حقوق ہیں ان کے بارے میں شعور بھی دیا جائے۔ ہماری تعلیمی نصاب میں جو 2004 سے ایک تیشہ چلایا گیا، اس کو مگر مغربی طرز فکر دیکھ کر نظریہ پاکستان اور اسلام سے باغی بنایا گیا، پھر پاکستان کے اندر سیکس ورکرز کی کانفرنس کرائی گئی، اسی طرح امریکہ نے ہم جنس پرستوں کا کنونشن بلایا، حدود قوانین کے خلاف بھی زبردست پروپگنڈا ہوا، تحریک نسواں ایکٹ میں جو تھا وہ مشرف حکومت دھونس اور داندلی سے منظور کروایا، اس کا اثر یہ ہوا کہ پاکستان میں ریپ میں اضافہ ہوا، چھوٹے نوخیز بچوں بچیوں جوانوں بلکہ بوڑھی عورتوں کے خلاف جنسی درندگی کا ایک طوفان عمڈ آیا، تو آپ خود دیکھیں کہ جو آج مارچ ہے وہ عالمی یوم خواتین بھی اسی فکری، عملی بے حیائی اور عریانی کو پاکستان میں عام کرنے کا باعث بن رہا ہے۔”

عورت مارچ نے ایک منظم عوامی احتجاج کی شکل اختیار کر کے نئی روایت قائم کی ہے (تصویر: گوگل)

انہوں نے مزید کہا کہ “ہندوانہ مغربی رسوم و رواج میڈیا اور میڈیا کے اوپر پیش کیے جانے والے ڈرامے غیرت کا قتل اور پھر اسی طرح بہت ساری وومن امپاورمنٹ کے نام پر کے ویمن اپاورمنٹ کیا ہے؟ اللہ تعالی نے تو قرآن پاک میں سورہ نساء عورت کے نام سے ایک سورت پوری بتائی اور عورتوں کو ان کی وراثت کے حقوق دیے۔ عورت کو مقام اور مرتبہ دیا۔ اصل چیز یہ ہے کہ جو متبادل حکمت عملی ہے۔ وہ یہی ہو سکتی ہے کہ نصاب کے اندر ان چیزوں کو شامل کیا جائے۔ بچیوں اور بچوں کی تربیت نہیں ہو رہی۔”

ثمینہ سعید نے مزید کہا کہ “اداروں کے اندر تربیت نہیں ہو رہی۔ گھروں کے اندر تربیت نہیں ہو رہی۔ تو ہمارا خیال یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی بہتری کے لیے جو بھی قانون بنایا جائے وہ اسلامی شریعت کے عین مطابق ہو۔ یونین کونسل کی سطح پر ایسی کونسلز قائم کی جائیں جہاں پر گھریلو تنازعات کو حل کروایا جائے۔ پری میرج کونسلنگ سینٹر افٹر میرج کونسلنگ سینٹر اور ان کے مسائل کا حل دینے کے لیے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ایسے پروگرام پیش کیے جائیں۔ معاشرے میں جو ایسی خواتین ہیں ان کے ذریعے ایسے پروگرام اور ایسی اویرنس دی جائے۔ نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سکھایا جائے۔”

اقدامات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ “نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جائے اور جو اسلام نے خواتین کو حقوق دیے ہیں جس میں مہر کا حق، وراثت کا حق، تعلیم کا حق، شادی پہ رضامندی کا حق ہے، یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ جس کے لیے نصاب تعلیم کے اندر بھی اور ماحول کے اندر اس طرح کی چیزوں کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف وہ عورت جو کھیتوں میں کام کر رہی ہے، جو گھروں میں کام کر رہی ہے، جو اداروں میں کام کر رہی ہے، جو ملازمتیں کر رہی ہے، سفر کرنے والی خواتین جو روزانہ اپنے گھروں سے نکلتی ہیں ان کے لیے بھی کوئی پراپر قانون سازی ہونی چاہیے۔”.

انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “یہ سب صرف نعرے لگانے سے نہیں ہوگا یہ بیٹھ کر سوچ بچار کرنے کے بعد خواتین کو ان کے جائز مقام ان کے جائز حقوق دینے ہوں گے۔ یہ حکمت عملیوں سے نہیں ہوگا یہ عمل درامد سے ہوگا۔”

اس تحریک کے تحت مختلف شہروں میں خواتین، مرد اور خواجہ سرا یکجا ہو کر مساوات اور انصاف کے مطالبے کرتے ہیں، جسے کئی حلقے خواتین کے حقوق کی مضبوط آواز قرار دیتے ہیں۔

عورت مارچ کو آزادی مارچ کہا جاتا ہے، مگر کس چیزسے آزادی، خود سے، خاندان سے یا پھر معاشرےسے؟ ہر شخص کا عورت مارچ کو سپورٹ کرنے والوں سے یہی سوال ہوتا ہے۔

احتجاج میں خواتین اپنے پسند کے نعرے بلند کرتی ہیں (تصویر: گوگل)

زینب ملک کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ “عورت مارچ میں ہر طبقے اور پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہوتی ہیں۔ اگرچہ شہری علاقوں میں زیادہ نمائندگی نظر آتی ہے لیکن دیہی علاقوں کی خواتین بھی اس میں اپنی آواز شامل کر رہی ہیں اور ان کے مسائل بھی اس پلیٹ فارم پر اجاگر کیے جاتے ہیں۔”

عورت مارچ کے منشور میں ہر سال مختلف نکات شامل کیے جاتے ہیں لیکن اس کے بنیادی مطالبات میں خواتین کے حقوق، مساوات اور سماجی انصاف، ہراسانی، گھریلو تشدد اور کام کی جگہ پر تحفظ، تنخواہوں میں برابری اور معاشی خودمختاری، شادی، طلاق اور وراثت میں مساوی حقوق شامل ہیں۔

ترجمان جماعت اسلامی شعبہ خواتین ثمینہ سعید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ “اصل میں یہ مارچ ایک خاص ایجنڈے کے تحت ہے۔ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو اس ایجنڈے کا بھی پتہ ہے۔ اس لیے اس طرح کے مارچ سے نہ کوئی حقوق ملتے ہیں بلکہ معاشرے کے اندر ایک افرا تفری پیدا ہوتی ہے۔ مختلف طبقہ فکر کے لوگ اور باشعور لوگ اس مارچ کے حوالے سے اس چیز کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ مارچ پاکستانی خاتون کے مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری خواتین کے لیے مناسب نہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “جس طرح کے نعرے عورت مارچ کی خواتین لگاتی ہیں اس سے یہ چیزیں تو بہت زیادہ کھل کر بھی سامنے آگئی ہیں کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہنا چاہتی کیونکہ اب ان کی حقیقت سب کے سامنے آشکار ہو چکی ہے۔ میں پھر یہی بات کہوں گی کہ جماعت اسلامی ہی خواتین کے حقوق کی اصل نمائندہ تحریک ہے۔ اس کو معاشرے میں پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک خواتین کے سیاسی خواتین کے معاشی معاشرتی تعلیمی اور قانونی مسائل اور حقوق سے واقف ہے۔ یہ ہی ان کو حقوق دلانے کے لیے کوشاں ہے۔”

پاکستان میں عورت مارچ کی سب سے بڑی حامی گلوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزائی ہیں جن کی تعلیم کے حصول کے لیے کی گئی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ انہوں نے کئی دفعہ لباس کو لے کر بیان دیے ہیں اور وہ ‘میرا جسم میری مرضی’ کی بڑی سپورٹر ہیں۔

ملالہ یوسفزئی خواتین کے حقوق کا استعارہ سمجھی جاتی ہیں (تصویر: گوگل)

عورت مارچ کے شرکا اور منتظمین ان نکات کو ملک میں قانونی، سماجی اور معاشی اصلاحات کے لیے ناگریز سمجھتے ہیں۔ عورت مارچ کے حامی اسے پاکستانی معاشرے میں خواتین کے مسائل اجاگر کرنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں روایتی معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

زینب ملک کا اس حوالے سے ماننا ہے کہ “عورت مارچ کے مطالبات بنیادی انسانی حقوق کے گرد گھومتے ہیں جو پاکستان کے آئین اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ برابری، انصاف اور خواتین کے تحفظ کی بات کرنا کسی بھی معاشرتی یا مذہبی قدر کے خلاف نہیں ہو سکتا۔”

نوجوان نسل میں خواتین کے حقوق سے متعلق شعور بیدار ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کو مساوی مواقع دیے جا رہے ہیں تو پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں؟ پاکستان میں اب بھی خواتین کہیں نہ کہیں بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کے مسائل پر کھل کر بات نہ کرنا ہے۔”

عورت مارچ پر تنقید بھی اتنی ہی شدت سے کی جاتی ہے جتنی شدت سے اسے سپورٹ کیا جاتا ہے۔ مذہبی اور روایتی حلقے اس مارچ کو ‘مغربی ایجنڈا’ قرار دیتے ہیں۔ کچھ حلقے ‘متنازعہ نعروں’ پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ روایتی خاندانی نظام پر حملہ ہے۔

ترجمان جماعت اسلامی خواتین ونگ ثمینہ سعید کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں خواتین کے حوالے سے قانون سازی موجود ہے۔ اصل میں اس کے اوپر عمل درامد نہیں ہے۔ جب تک قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا اس وقت تک اس قانون کی کوئی افادیت نہیں ہوتی۔ اگر وہ قانون موجود ہے تو پھر بہت سارے واقعات جس میں نور مقدم، خدیجہ، سیالکوٹ میں پیش آنے والا زہرہ کا واقعہ اور قصور میں پیش آنے والے زینب کے واقعے جیسے تشویشناک واقعات کیوں پیش آئے؟”

انہوں نے مزید کہا کہ “پھر اگر ہم سروے دیکھیں تو سروے میں 90 پرسنٹ خواتین پاکستان کے اندر کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا شکار ہیں۔ وہ گھریلو تشدد سے لے کر ملازمت کی جگہوں پر ان کے اوپر تشدد ہو رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کے اندر طالبات بھی ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں تو اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ ایک رد عمل ہے۔”

 

انہوں نے عورت مارچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “اگر آپ عورت مارچ کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی ایک رد عمل ہے اور یہ رد عمل حقوق نہ دینے والوں کے خلاف نہیں یہ رد عمل زیادہ اسلام کے خلاف ہے۔ حالانکہ اسلام نے تو عورت کو معاشی معاشرتی سیاسی اور وراثت کے حقوق دیے ہیں۔ اسلام نے عورت کو شادی کے لیے رضامندی کا حق، شوہر کو پسند نہ کرنے کی صورت میں خلا کا حق، وراثت، جائیداد، اپنی حدود کے اندر رہ کر تعلیم حاصل کرنے اور کاروبار کرنے کا حق بھی دیا ہے۔ لیکن یہ جو ا نام نہاد عورت مارچ ہے یہ دراصل ایک کنفیوژن پیدا کر رہا ہے یہ خواتین کو حقوق دلانے کی بجائے خواتین کو اسلام سے متنفر کر رہے ہیں۔”

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عورت مارچ شہری طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ دیہی خواتین کے حقیقی مسائل پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ ایک نمایاں سوال یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا یہ احتجاج واقعی خواتین کے مسائل حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، یا محض ایک روزہ مظاہروں تک محدود ہے؟

پاکستان میں خواتین کے حقوق کی بحث ایک طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن عورت مارچ نے اس میں ایک نئی شدت پیدا کی ہے۔ لیکن کیا یہ تحریک واقعی سماجی انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے؟ عورت مارچ کے ناقدین تو اسے مغربی نظریات کا پرچار قرار دیتے ہیں۔

زینب ملک کا کہنا ہے کہ ” یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ عورت مارچ خواتین کے وہی حقوق مانگ رہا ہے جو اسلامی تعلیمات اور پاکستانی آئین میں درج ہیں۔ اگر خواتین کو تشدد سے بچانے، مساوی مواقع فراہم کرنے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کو مغربی نظریہ کہا جائے تو یہ ایک غلط تصور ہوگا۔”

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عورت مارچ نے خواتین کے حقوق پر گفتگو کو مزید جرات مند اور واضح بنایا ہے۔ دوسری جانب، ناقدین کا کہنا ہے کہ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، محض سڑکوں پر نکلنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔

ثمینہ سعید کا کہنا ہے کہ “عورت مارچ جیسے اقدام دراصل عورت کو اس کے اصل مقام سے دور کر رہے ہیں۔ جہاں ہم قانون کی بات کرتے ہیں کہ قانون بنانے والے جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ہیں وہ عورت کے اصل مسائل سے واقف نہیں ہیں۔ عورت تعلیم کی کمی کا شکار ہے اس کے لیے تعلیم کے مواقع نہیں ہیں۔ اس کے لیے صحت کے بنیادی جو اس کا حق ہے وہ اس کو صحت کے مراکز اور اس کی صحت کے حوالے سے جو اقدامات کرنے چاہیے وہ نہیں ہیں۔

انہوں نے عورتوں کو درپیش مسائل پر مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ “عورت گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہے تو وہ کس سے جا کر شکایت کرے۔ خاندانوں میں اس کو وہ مقام اور مرتبہ حاصل نہیں ہے جو کہ ہونا چاہیے۔ آٹھ مارچ کا دن تو ہم منا رہے ہیں لیکن یہ سڑکوں پر روڑی کوٹنے والی عورت، بھٹا مزدور عورت، کھیتوں میں اپنے آپ کو ہلکان کرنے والی عورت، اور پھر وہ عورت جس کی ریاست کو کوئی فکر نہیں جو بیوہ ہے اور اپنے بچوں کو پال رہی ہے، ان سب کی مشکلات کا ان کو اندازہ نہیں ہے کہ وہ کس قدر مشکلات کا شکار ہیں۔ ان سب بیچاری عورتوں کو تو پتہ ہی نہیں کہ یہ آٹھ مارچ کیا ہے۔”

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر سال عورت مارچ کے موقع پر ایک مخصوص طبقہ اس کی حمایت میں اور دوسرا مخالفت میں سرگرم ہو جاتا ہے، لیکن عملی طور پر خواتین کے لیے کتنے قوانین بنے، کتنے نافذ ہوئے، اور کتنے ان کے حق میں فیصلے دیے گئے، یہ ایک الگ بحث ہے۔

ثمینہ سعید کا کہنا ہے کہ “اسلام نے تو ہر دن عورت کا دن قرار دیا ہے۔ اسلام نے عورت کو جمع کام اور مرتبہ دیا ہے۔ وہ مقام اور مرتبہ قانون ساز اداروں نے معاشرے نے بھی نہیں دیا۔ جاگیردار وڈیرے تو اپنی جائیداد کو بچانے کے لیے قران کے ساتھ عورت کی شادی کر دیتے ہیں۔ یہ ایسی رسموں کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں کہ جس میں عورت کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ جو یہ بنیادی غلطیاں ہیں کمزوریاں ہیں ان کو دور کیا جائے۔”

پاکستانی حکومت اور ریاستی ادارے عمومی طور پر عورت مارچ کے انعقاد کی اجازت تو دیتے ہیں، لیکن اس پر ہونے والے تنازعات میں براہ راست مداخلت سے گریز کرتے ہیں۔ کچھ حکومتی حلقے خواتین کے حقوق کے لیے قانون سازی کی بات کرتے ہیں، لیکن عملی سطح پر خاطرخواہ پیش رفت نظر نہیں آتی۔

یہ سوال آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا 2018 میں تھا کہ کیا عورت مارچ واقعی پاکستانی خواتین کے حقوق کے لیے ایک مؤثر تحریک ثابت ہو سکتا ہے؟

ثمینہ سعید کا ماننا ہے کہ ” خواتین کو حقوق دلانے کے لیے منظم ہو کر خواتین کو ایک پلیٹ فارم دینا پڑے گا جس کے ذریعے خواتین خود اپنے مسائل بتائیں اور ان کے تمام تر مسائل کا حل پیش کیا جائے۔ اس لحاظ سے صرف ایک دن نہیں بلکہ پورا سال کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کئی سالوں پر محیط ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب ہمارے پاس حکومت آئے گی تو ہم خواتین کو تعلیم کے لحاظ سے صحت کے لحاظ سے معاشی طور پر اور معاشرتی طور پر نوجوان بچیوں کے لیے ہم وہ اقدامات کریں گے جس میں ان کے لیے تعلیم کے مواقع ہوں گے، ان کو ہنر سکھایا جائے گا، ان کے ملازمت کے حوالے سے مسائل کو حل کیا جائے گا۔ ان کے لیے کھیلوں کے میدان، ادارے، بچیوں کے لیے الگ ادارے اور لڑکوں کے لیے الگ ادارے ہوں گے۔ ان کو ایسا ماحول دیا جائے گا کہ وہ اطمینان کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔”

عورت مارچ کے حامیوں اور ناقدین کے درمیان جاری یہ بحث شاید جلد ختم نہ ہو، لیکن ایک بات طے ہےکہ ہر سال یہ تحریک خواتین کے حقوق سے متعلق مکالمے کو مزید واضح کر رہی ہے۔

کیا عورت مارچ واقعی ایک بڑی سماجی تبدیلی کی بنیاد رکھ سکتا ہے؟ کیا حکومت اور معاشرہ خواتین کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر سال 8 مارچ کو پاکستان کے ہر شہری کے ذہن میں اٹھتے ہیں، اور شاید مستقبل میں ان کے جوابات بھی سامنے آئیں۔

 

 

افضل بلال

افضل بلال

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس