امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خفیہ خط ارسال کیا ہے، جس میں ایران کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور ایک نیا معاہدہ طے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس خط کی خبر منظر عام پر آتے ہی ایرانی سرکاری میڈیا نے اسے نمایاں کوریج دی، تاہم خامنہ ای کے دفتر کی جانب سے اس کی وصولی کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔
یہ پہلا موقع نہیں جب امریکہ نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے اس نوعیت کا اقدام کیا ہو۔ سابق صدر باراک اوباما نے بھی 2015 کے جوہری معاہدے سے قبل خامنہ ای کو متعدد خفیہ خطوط ارسال کیے تھے، تاہم ایران نے ہمیشہ امریکی پیشکشوں پر سخت مؤقف اپنایا۔
ٹرمپ نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس خط کا براہ راست ذکر نہیں کیا، مگر یہ عندیہ ضرور دیا کہ ایران کے ساتھ جاری کشیدگی جلد کسی بڑے اقدام کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم ایران کے حوالے سے ایک اہم صورتحال سے گزر رہے ہیں، اور بہت جلد کچھ ہونے والا ہے، بہت، بہت جلد۔”
ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ ایران کے ساتھ ایک “امن معاہدہ” چاہتے ہیں، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو دیگر راستے بھی اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
ان کے اس بیان سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ اگر سفارتی راستہ کامیاب نہ ہوا تو امریکہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے بھی تیار ہو سکتا ہے۔
امریکی صدر کا یہ سخت مؤقف اس پس منظر میں سامنے آیا ہے جب واشنگٹن اور تل ابیب بارہا یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ٹرمپ نے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تصدیق کی کہ انہوں نے ایران کو براہ راست ایک خط بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کریں، کیونکہ اگر ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود نہ کیں تو ممکنہ فوجی کارروائی کے نتائج “خوفناک” ہوں گے۔
ان کے اس بیان کے بعد اقوام متحدہ نے بھی امریکی اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ “سفارت کاری ہی ایران کے جوہری پروگرام کو پرامن رکھنے کا بہترین طریقہ ہے، اور ہم اس مقصد کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔”
دوسری جانب، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “ایران امریکہ کے ساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات نہیں کرے گا۔ ہمارا جوہری پروگرام کسی فوجی کارروائی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو ہمارے سائنسدانوں کے دماغ میں ہے، اور ذہنوں پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔” ایرانی قیادت کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ تہران کسی بھی امریکی دباؤ کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یہ سفارتی پیش رفت ٹرمپ کے اس طرزِ عمل کی یاد دلاتی ہے جب انہوں نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کو خطوط ارسال کیے تھے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں دونوں رہنماؤں کے درمیان براہ راست ملاقاتیں بھی ہوئیں، مگر پیانگ یانگ کے جوہری اور میزائل پروگرام پر کوئی حتمی معاہدہ نہ ہو سکا۔
اب ایران کے ساتھ بھی امریکہ ایک مرتبہ پھر سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن تہران کا اب تک کا ردعمل اس حوالے سے کسی بڑی پیش رفت کے امکانات کو کمزور کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ایران طویل عرصے سے یہ مؤقف اپنائے ہوئے ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم مغربی ممالک اور اسرائیل کی جانب سے متعدد بار یہ الزامات لگائے گئے ہیں کہ تہران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی تازہ ترین رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ ایران نے اپنی یورینیم افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھا دیا ہے، جو کہ ہتھیاروں کے معیار (90 فیصد) تک پہنچنے کا ایک اہم مرحلہ ہے۔ اس پیش رفت کے بعد امریکہ نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ کی ایران پالیسی ہمیشہ سخت گیر رہی ہے۔ 2018 میں انہوں نے امریکہ کو یک طرفہ طور پر ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے سے نکال لیا تھا، جس کے بعد تہران پر کڑی اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں اور ایرانی معیشت شدید بحران کا شکار ہو گئی۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو 3.67 فیصد کی سطح تک یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت تھی، لیکن اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ایران کے یورینیم ذخائر 8,294.4 کلوگرام تک پہنچ چکے ہیں، جن میں سے کچھ مقدار 60 فیصد خالصیت تک افزودہ کی جا چکی ہے۔
ایران کی جانب سے یورینیم افزودگی میں اضافے کے بعد خطے میں کشیدگی مزید بڑھ رہی ہے، اور اس تمام صورتحال نے ٹرمپ پر بھی سفارتی دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔
امریکی صدر بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے خواہشمند ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کے تحت ایرانی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے سخت اقدامات بھی کر رہے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ماضی میں کہا تھا کہ “دشمن کے ساتھ مذاکرات میں کوئی نقصان نہیں”، لیکن حالیہ دنوں میں ان کے بیانات سخت ہو چکے ہیں۔
انہوں نے امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو “بے وقوفی اور غیر دانشمندانہ” قرار دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ٹرمپ کی جانب سے جوہری مذاکرات کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
ٹرمپ کی یہ سفارتی چال کامیاب ہوگی یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اگر ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں تیز رکھیں تو خطے میں ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کھلی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔