یمن کے حوثی گروپ نے اسرائیل کو چار دن کی مہلت دی ہے کہ وہ غزہ پر عائد خوراک، ادویات اور امداد کی ناکہ بندی ختم کرے، بصورتِ دیگر وہ اسرائیل کے خلاف سمندری حملے دوبارہ شروع کر دیں گے۔
یہ الٹی میٹم عندیہ ہے کہ حوثیوں کی جانب سے حملوں میں دوبارہ شدت آ سکتی ہے۔ قبل ازیں، جنوری میں اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی جنگ بندی کے بعد حوثیوں کے حملے تھم گئے تھے۔
گروپ کے رہنما عبدالملک الحوثی نے ایک ویڈیو بیان میں واضح کیا کہ عالمی برادری کو اس بارے میں متنبہ کیا جا رہا ہے اور وہ صرف چار دن کی مہلت دے رہے ہیں تاکہ ثالثی کی کوششیں جاری رہ سکیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل اس مدت کے بعد بھی غزہ میں انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا، بارڈر کراسنگ کو بند رکھا اور خوراک و ادویات کی ترسیل نہ ہونے دی تو حوثی اپنے سمندری حملے بحال کر دیں گے۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثی جنگجو پہلے ہی اسرائیل کے خلاف کئی حملے کر چکے ہیں۔ انہوں نے غزہ پر جنگ کے بعد بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں 100 سے زائد حملے کیے، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے کیے گئے تھے۔
ان حملوں کے دوران حوثیوں نے دو بحری جہازوں کو تباہ کیا، ایک کو قبضے میں لے لیا اور کم از کم چار ملاحوں کو ہلاک کر دیا۔ ان حملوں کی وجہ سے عالمی تجارتی بحری نقل و حمل شدید متاثر ہوئی اور کئی کمپنیوں کو طویل اور مہنگے متبادل راستے اختیار کرنے پڑے۔
حوثی جنگجوؤں نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے بھی کیے، جن میں تل ابیب کے ایک اسکول سمیت کئی عمارتیں نقصان کا شکار ہوئیں اور کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے چند روز قبل حوثیوں کو دوبارہ “دہشت گرد تنظیم” قرار دیا، تاہم اس بارے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے حوثیوں کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ حوثیوں کی جانب سے غزہ کے مظلوم عوام کے لیے جاری 15 ماہ کی مزاحمت کا تسلسل ہے۔
حوثیوں نے اس سے قبل فروری میں بھی متنبہ کیا تھا کہ اگر اسرائیل یا امریکہ نے فلسطینیوں کو زبردستی بےدخل کرنے کی کوشش کی تو وہ عسکری ردعمل دیں گے۔
ان کی تازہ وارننگ ایسے وقت میں آئی ہے جب اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امدادی سامان کی مکمل بندش کو سات دن گزر چکے ہیں۔
یہ محاصرہ 2 مارچ کو اس وقت شروع ہوا جب اسرائیل نے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اس کے پہلے مرحلے میں توسیع کرتے ہوئے جنگ بندی کے مکمل خاتمے کے وعدے سے انحراف کیا۔
اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے ممالک نے اسرائیلی ناکہ بندی کو ممکنہ جنگی جرم قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کی اس کارروائی کے نتیجے میں غزہ میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جبکہ شہریوں میں دوبارہ شدید بمباری اور قحط کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس سخت ناکہ بندی کے نتیجے میں سرد موسم کے باعث کم از کم آٹھ نومولود بچے ہلاک ہو چکے ہیں، جن کے اہلِ خانہ عارضی خیموں میں پناہ لیے ہوئے تھے۔
اقوامِ متحدہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ ایک قابض طاقت کے طور پر اسے فلسطینیوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
ادارے نے خبردار کیا کہ اگر شہریوں کو جان بوجھ کر بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا تو یہ اجتماعی سزا کے زمرے میں آ سکتا ہے، اور قحط کو بطورِ ہتھیار استعمال کرنا ایک جنگی جرم تصور کیا جاتا ہے۔
محاصرہ جاری رہنے کے باعث غزہ میں طبی ساز و سامان کی بھی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، اور اسپتال زخمیوں کی دیکھ بھال میں مشکلات کا شکار ہیں۔
خان یونس میں موجود الجزیرہ کے نمائندے طارق ابو عزوم کے مطابق، صحت کے شعبے سے وابستہ افراد تمام مشکلات کے باوجود طبی خدمات جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن صورتحال بدترین ہوتی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ “غزہ میں ایک لاکھ سے زائد افراد اسرائیلی حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں، اور اب ایندھن اور طبی سامان کی عدم دستیابی کے سبب ان کے علاج معالجے کے حوالے سے سنگین خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
اسپتالوں کا زیادہ تر انحصار ایمرجنسی جنریٹرز پر ہے، لیکن چونکہ اسرائیل نے ایندھن کی ترسیل بھی روک دی ہے، اس لیے آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔”
اسرائیل کی جاری جنگی کارروائیوں میں اب تک 48,440 فلسطینی جاں بحق اور 111,845 زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد 61,709 سے تجاوز کر سکتی ہے، کیونکہ ہزاروں فلسطینی تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور مردہ قرار دیے جا چکے ہیں۔