Follw Us on:

آئی ایم ایف کا قرض پالیسی پر اعتراض، ممکنہ معاہدہ توانائی اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے سے مشروط

حسیب احمد
حسیب احمد
بجلی ڈویژن کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسوں میں کمی کی تجویز مسترد (تصویر، فائل)

انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈز نے حکومت کی جانب سے بینکوں سے 1250 ارب روپے ادھار لینے کی حکمت عملی پر اعتراض عائد کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے اعتراض کا مقصد بجلی کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ کے بڑے مسئلے کو حل کرنا ہے۔

آئی ایم ایف نے استفسار کیا ہے کہ اگر مستقبل میں بجلی کی طلب میں کمی واقع ہوتی ہے تو سی پی پی اے سود اور اصل رقم کی ادائیگی کیسے کرے گا؟

دوسری جانب آئی ایم ایف نے بجلی ڈویژن کی جانب سے جنرل سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسوں میں کمی کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان پہلے مرحلے کے مذاکرات مکمل ہوگئے ہیں۔

معاشی ماہر اور ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد سلہری نے ممکنہ معاہدے کو توانائی کے شعبے پر کام اور ٹیکس نیٹ کو بڑھانے سے مشروط کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی آئی ایم ایف سے توقعات میں ادائیگی کے عدم توازن کو عبور کرنا ہے، آئندہ تین مالی سالوں میں پاکستان کو تقریبا 22 ارب ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری چاہئے ہوگی.

یہ اس وقت تک نہیں مل سکے گی جب تک ملک کے پاس آئی ایم ایف کا لیٹر آف کمفرٹ نہ ہو۔ اس کا مطلب ملک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بڑھ جائیں۔

عابد سلہری نے کہا انہیں نہیں لگتا اس وقت ملک اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کو لے کر کوئی بڑا چیلنج ہے۔جون کے آخر یا جولائی کے اوائل میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پا جانا چاہئے۔

معاشی ماہر خالد ولید نے کہا آئندہ مالی سال کا بجٹ مشکل ہوگا جس میں عمومی سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان کی توقعات میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی پروگرام چار سے پانچ سال رہنا ہے۔

سماجی بہبود کے پروگرام کی اجازت دینا شامل ہے جس سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دی جائے گی، ساتھ ہی اس سے دیگر ممالک کا پاکستان میں اعتماد بڑھنے کی توقع ہے۔

قرض کے نئے پروگرام کے لیے درکار وقت سے متعلق خالد ولید نے کہا وزیر خزانہ کے امریکہ دورے کے بعد معاملات حتمی صورت اختیار کر جائیں گے، جس کے بعد ممکنہ طور پر جولائی یا اگست میں پاکستان اور آئی ایم ایف معاہدے پر پہنچ جائیں گے۔

ممکنہ معاہدے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے خالد ولید نے کہا آئندہ مالی سال کا بجٹ ایک مشکل بجٹ ہوگا جس میں عمومی سبسڈی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، اس سے صارفین پر بوجھ بڑھے گا تاہم ساتھ ہی جامع بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر بھی مذاکرات کیے جا رہے ہوں گے۔

معاہدے سے قبل اصلاحات کرنے سے متعلق انہوں نے کہا پاکستان نے سٹینڈ بائے ارینجمنٹ پروگرام پر کام کیا اور گردشی قرضے نہیں بڑھنے دیے، اس کے علاوہ سبسڈی کو کم کرنا اور نجکاری شامل ہیں۔

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس