شام میں حالیہ جھڑپوں کے دوران دو دن میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب نئے اسلام پسند حکمرانوں اور بشار الاسد کے وفادار جنگجوؤں کے درمیان ساحلی علاقوں میں شدید لڑائی چھڑ گئی۔ جنگی نگرانی کرنے والے گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق، ہلاک ہونے والوں میں 745 عام شہری، 125 شامی سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور اسد حکومت کے 148 حامی جنگجو شامل ہیں۔
آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمن نے بتایا کہ جبلہ، بنیاس اور قریبی علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں، جو 13 سالہ خانہ جنگی میں برسوں کا بدترین تشدد ہے۔ ہلاک شدگان میں علوی فرقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
یہ لڑائی جمعرات کو اس وقت شروع ہوئی جب اسد کے وفادار جنگجوؤں نے نئی حکمران اتھارٹی کے خلاف مہلک حملے کیے، جسے ابتدائی حملوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے جواب میں حکام نے بڑے پیمانے پر سکیورٹی آپریشن شروع کیا۔ ایک شامی سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ جھڑپوں میں سکیورٹی فورسز کے کئی درجن اہلکار مارے گئے ہیں۔
حکومتی اہلکاروں نے تسلیم کیا ہے کہ آپریشن کے دوران خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، لیکن اس کا الزام غیر منظم عناصر اور جنگجوؤں پر عائد کیا ہے جو لڑائی کے دوران سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے یا ذاتی فائدے کے لیے میدان میں کود پڑے۔
وزارت دفاع نے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ خلاف ورزیوں کو روکنے اور حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ساحلی علاقوں کی طرف جانے والی تمام سڑکیں بند کر دی گئی ہیں، جبکہ متاثرہ شہروں کی گلیوں میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
حکومت نے اعلان کیا ہے کہ خلاف ورزیوں کی نگرانی کے لیے ایک ہنگامی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے، جو کسی بھی ایسے فرد کو فوجی عدالت میں بھیجنے کا اختیار رکھتی ہے جو فوجی کمانڈ کے احکامات کی خلاف ورزی کرے گا۔
رپورٹس کے مطابق، بعض علاقوں میں شدت پسند گروہوں نے علوی فرقے کے درجنوں مردوں کو پھانسی دی ہے، جس سے نئے حکمرانوں کی گورننس کی صلاحیت پر مزید سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ مغربی اور عرب ممالک نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حالات قابو میں نہ آئے تو مزید خونریزی ہو سکتی ہے۔
بشار الاسد کو دسمبر میں حکومت سے بر طرف کیا گیا تھا، جس کے ساتھ ان کے خاندان کی کئی دہائیوں پر محیط حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ یہ حکمرانی سخت جبر، بدترین خانہ جنگی اور تباہ کن بحرانوں سے بھری رہی۔
شام کے عبوری صدر احمد شرعا نے ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے اس سکیورٹی آپریشن کی حمایت کی، لیکن سیکیورٹی فورسز کو خبردار کیا کہ وہ کارروائی میں حد سے نہ بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی اقدار پر قائم رہنا چاہیے، کیونکہ یہی چیز ہمیں دشمن سے ممتاز کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہریوں اور قیدیوں کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اگر ہم اپنے اصولوں سے ہٹ جائیں تو ہم اور ہمارا دشمن ایک جیسے ہو جائیں گے۔