ایران نے 11 لاکھ افغان مہاجرین کو ملک بدر کر دیا ہے اور مزید مہاجرین کو پناہ دینے سے معذرت کر لی ہے۔
ایرانی وزیر داخلہ اسکندر مومنی کے مطابق ملک میں مزید افغان مہاجرین کے لیے جگہ نہیں، اسی لیے حکومت نے سرحدوں کی نگرانی سخت کر دی ہے تاکہ غیر قانونی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔
ایرانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران تقریباً 20 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت روزانہ تقریباً 3,000 افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔
پاکستان میں بھی غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی گئی ہیں۔
گزشتہ روز پاکستانی وزارت داخلہ نے تمام افغان سِٹیزن کارڈ ہولڈرز کو 31 مارچ 2025 تک ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی۔
حکام کے مطابق، مقررہ تاریخ کے بعد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور یکم اپریل سے ملک بدری کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔
راولپنڈی میں حالیہ آپریشن کے دوران 205 افغان شہریوں کو گرفتار کرکے ملک بدر کیا گیا، جبکہ حکومت پاکستان نے غیر ملکی سفارتی مشنز سے بھی کہا ہے کہ وہ افغان شہریوں کی واپسی کے عمل میں تعاون کریں۔
افغانستان میں طالبان حکومت نے ایران اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کو زبردستی کے بجائے ایک منظم اور مرحلہ وار طریقے سے انجام دیا جائے تاکہ بے دخل ہونے والے افراد کو بہتر طریقے سے دوبارہ آباد کیا جا سکے۔
ایران اور پاکستان کی سخت پالیسیوں کے بعد لاکھوں افغان شہری غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو گئے ہیں۔
جنگ، غربت اور روزگار کے مسائل سے دوچار افغان عوام کے لیے ان پالیسیوں کے باعث مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔