Follw Us on:

نیٹو کا بوسنیا کے امن معاہدے کی حفاظت کا عہد، علیحدگی پسند قوانین پر شدید ردعمل

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Nato sectratory
نیٹو کا بوسنیا کے امن معاہدے کی حفاظت کا عہد، علیحدگی پسند قوانین پر شدید ردعمل

نیٹو کے سیکریٹری جنرل ‘مارک رٹے’ نے پیر کے روز بوسنیا کی علاقائی سالمیت کے حوالے سے ایک اہم بیان دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نیٹو بوسنیا کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ملک کے سیاسی رہنماؤں کو آپس میں تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ تنازعات حال ہی میں بوسنیا کے سرب علاقے کے صدر ‘میلوراد ڈوڈک’ کی ایک سال قید کی سزا اور چھ سال کے لیے سیاست سے پابندی کے بعد شدت اختیار کر گئے ہیں۔

ڈوڈک، جو روس کے حامی ہیں انہوں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سرب علاقائی پارلیمنٹ کے ذریعے قومی پولیس اور عدلیہ کو اپنے علاقے میں عملداری سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں: گرین لینڈ کی قسمت کا فیصلہ: 11 مارچ کے انتخابات عالمی سطح پر اہمیت اختیار کر گئے

اس فیصلے کے بعد یورپی یونین کے امن فوجی مشن، ایوفور نے بوسنیا میں اپنی 1,100 افراد پر مشتمل فورس میں عارضی طور پر اضافہ کر دیا۔

رٹے نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو بوسنیا میں کسی بھی قسم کے سیکیورٹی خلا کی اجازت نہیں دے گا اور بوسنیا کے امن معاہدے (ڈیٹن امن معاہدہ) اور آئین کی بے حرمتی کو “ناقابل قبول” قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ “ہم اس امن کو خطرے میں نہیں ڈالنے دیں گے جسے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا۔”

اس کے علاوہ ڈیٹن امن معاہدہ 1992-95 کے دوران یوگوسلاویہ کی خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ہوا تھا جس میں 100,000 افراد جان سے گئے تھے۔

لازمی پڑھیں: امریکی ریاست پنسلوانیا میں طیارہ گر کر تباہ ہوگیا مگر تمام مسافر محفوظ

اس معاہدے کے تحت بوسنیا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا بوسنیاک-کروشیائی وفاق اور سرب جمہوریہ (ریپبلکا سرپسکا) جس کے مرکزی ادارے کمزور ہیں۔

رٹے نے بوسنیا کے تین رکنی صدراتی نظام کے ممبران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “یہ ملک آپ تینوں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس ملک کو فخر کا احساس دلائیں اور اس مسئلے کا حل نکالیں۔”

اس دوران بوسنیا کی آئینی عدالت نے جمعہ کے روز سرب جمہوریہ کی پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کردہ علیحدگی پسند قوانین کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جو بوسنیا کے آئینی نظام اور خودمختاری کے لیے خطرہ بننے کی وجہ سے تھے۔

ضرور پڑھیں: یوکرین دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن گیا، اسٹاک ہوم انٹرنیشنل کی رپورٹ

ڈوڈک کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ بوسنیا کی سرب جمہوریہ کو آزادی دلانے کے لیے سرگرم ہیں اور انہیں روس، سربیا کے صدر الیگزینڈر وُکِچ اور ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کی حمایت حاصل ہے۔

تاہم، اس دوران ماسکو نے بوسنیا کی عدالت کے فیصلے کو “بالکان کے استحکام پر حملہ” قرار دیا ہے۔

دوسری جانب بوسنیا کی موجودہ سیاسی صورت حال ایک نیا چیلنج پیش کر رہی ہے اور عالمی طاقتیں اس بحران کو روکنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ یہ کشیدگی خطے میں مزید بے چینی اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: شام میں بشار الاسد کے وفاداروں کے خلاف آپریشن مکمل، 1,000 سے زائد لوگ جان بحق

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس