کینیڈا کے ایک برفانی ریزورٹ میں ہونے والی جی سیون وزرائے خارجہ کی تین روزہ میٹنگ کے اختتام سے محض ایک دن پہلے، ریاستہائے متحدہ کے قریبی اتحادیوں کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں ان کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے نہ آ جائیں۔
یوکرین کی علاقائی سالمیت، سلامتی کی ضمانتیں، اور روس پر ممکنہ نئی پابندیوں جیسے معاملات پر سخت بحث چھڑی ہوئی تھی۔ دوسری جانب اسرائیل اور فلسطین تنازعہ پر مشترکہ موقف اپنانا بھی ایک بڑا چیلنج تھا، جہاں دو ریاستی حل کے حوالے سے ہر ملک کی اپنی حساسیت تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیرف پالیسیوں اور روس کے ساتھ نرم رویے نے اتحادیوں کو پہلے ہی الجھا رکھا تھا، جس کی وجہ سے یہ جی سیون اجلاس ابتدا میں تناؤ کا شکار ہو گیا۔ تاہم، سفارت کاروں نے رات گئے تک مذاکرات جاری رکھے، ایک ایسے اتحاد کے لیے جو اکثر ان معاملات پر متفق نظر نہیں آتا۔
لیکن جمعہ کی صبح، جیسے کسی نئے پوپ کے انتخاب کے بعد سفید دھواں اٹھتا ہے، ویسے ہی مذاکرات میں اتفاق رائے کی خبر ملی۔ برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، یورپی یونین اور امریکہ کے وزراء آخر کار ایک مشترکہ اعلامیے پر متفق ہو گئے، جس نے سب کو حیران کر دیا۔
اجلاس سے پہلے، جی سیون کے سفارت کاروں کو یہ خدشہ تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو، جو جدہ میں یوکرینی حکام سے اعلیٰ سطحی مذاکرات کے بعد اجلاس میں شریک ہو رہے تھے، کہیں ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کی پیروی نہ کریں۔ لیکن روبیو نے حیران کن طور پر ایسا رویہ اپنایا جو نہ صرف واضح اور مضبوط تھا بلکہ کچھ معاملات میں لچکدار بھی۔
ذرائع کے مطابق، روبیو چین اور مشرق وسطیٰ کے معاملات پر امریکی مؤقف پر ڈٹے رہے، مگر انہوں نے یوکرین سمیت دیگر حساس معاملات پر اتحادیوں کی رائے کو اہمیت دی۔ مذاکرات میں ان کی حکمت عملی کو سراہا گیا، حتیٰ کہ ایک سفارت کار نے انہیں “اچھا آدمی” قرار دیا۔
روبیو نے صحافیوں کو بتایا، “اہم بات یہ ہے کہ ہم ان معاملات پر اختلافات کے باوجود ان چیزوں پر مل کر کام کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے جن پر ہم متفق ہیں۔”
تاہم، مشرق وسطیٰ میں امن کے حوالے سے دو ریاستی حل کا ذکر ایک ایسا نکتہ تھا جس پر روبیو کا مؤقف غیر متزلزل رہا۔
سفارتی حلقوں میں یہ مانا جا رہا ہے کہ ان کے عملی رویے نے اجلاس کو نتیجہ خیز بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔