ہفتے کے روز، ایک وفاقی جج نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کو عارضی طور پر روک دیا، جس کے تحت وینزویلا کے گینگ “ٹرین ڈی اراگوا” کے مبینہ ارکان کی ملک بدری کو تیز کرنے کے لیے 1798 کے “ایلین اینیمیز ایکٹ” کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس اقدام کا مقصد ایک ایسے قانون کو بروئے کار لانا تھا جو عام طور پر جنگی حالات میں استعمال ہوتا ہے، تاکہ مبینہ مجرموں کو فوری طور پر بے دخل کیا جا سکے۔
چند گھنٹے قبل، ٹرمپ نے اس قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کو ایک منظم مجرمانہ تنظیم کے “حملے” کا سامنا ہے، جو اغوا، بھتہ خوری اور کنٹریکٹ کلنگ جیسے جرائم میں ملوث ہے۔ تاہم، جج جیمز بواسبرگ نے اس حکم پر 14 دن کی عارضی پابندی عائد کر دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام جنگی حالات میں استعمال ہونے والے اختیارات کا غلط استعمال ہے، کیونکہ یہ قانون کسی قوم کی دشمنانہ کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا، نہ کہ غیر ریاستی عناصر کے خلاف۔
ٹرمپ کے اس فیصلے کے تحت وینزویلا کے تمام 14 سال یا اس سے زیادہ عمر کے شہری، جو مبینہ طور پر گینگ کے رکن ہیں، اگر وہ امریکی شہریت یا قانونی رہائشی حیثیت نہیں رکھتے، تو انہیں “گرفتار، روکا اور ملک بدر” کیا جا سکتا ہے۔ اس حکم نامے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ گروہ امریکہ کے اندر غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکن سول لبرٹیز یونین کے وکیل لی گیلرنٹ، جنہوں نے اس اقدام کے خلاف دلائل دیے، نے کہا، “یہ اعلان غیر قانونی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے غلط استعمال کی ایک اور مثال ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگی اختیارات کو امن کے وقت امیگریشن پالیسی میں استعمال کرنا “بہت خطرناک نظیر قائم کرے گا۔”
دوسری طرف، اٹارنی جنرل پام بونڈی نے عدالت کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، “یہ امریکی شہریوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے، کیونکہ جج نے ٹرین ڈی اراگوا کے دہشت گردوں کی حمایت کی ہے۔” بونڈی نے مزید کہا کہ حکومت کو اپنے اختیارات کا مکمل استعمال کرنا چاہیے تاکہ ملک کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
“ایلین اینیمیز ایکٹ” دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی، جرمن اور اطالوی نژاد افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کے اس اقدام کو بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے اس قانون کے احیا کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس پر انسانی حقوق کے گروپوں اور ڈیموکریٹس نے شدید تنقید کی ہے۔ کئی حلقے اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس قانون کو غیر معمولی حالات میں استعمال کرنے سے مستقبل میں اس کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔
فروری میں، ٹرمپ انتظامیہ نے “ٹرین ڈی اراگوا”، “سینالوا کارٹیل” اور دیگر چھ گروہوں کو عالمی دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا تھا۔ ہفتے کے روز جاری کردہ ہدایت میں کہا گیا تھا کہ “ٹرین ڈی اراگوا” امریکہ میں غیر قانونی ہجرت کے ذریعے اپنے مجرمانہ مقاصد کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ حکومت ان گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے ہر ممکنہ قانونی آپشن استعمال کرے گی۔
عدالتی فیصلے کے بعد، اس معاملے پر مزید قانونی جنگ کی توقع کی جا رہی ہے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ اس عارضی پابندی کو چیلنج کرنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کر رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں عدالتی فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی تشریح کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، جبکہ ٹرمپ کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام قومی سلامتی کے لیے ناگزیر تھا۔