امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے تین سال بعد ایک غیر معمولی سفارتی پیش رفت کے طور پر امریکی وفد کابل کے دورے پر پہنچا۔ افغان میڈیا کے مطابق اس دورے کے دوران طالبان اور امریکی وفد کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں دونوں فریقین نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔
افغان دارالحکومت میں ہونے والی اس ملاقات میں امریکی خصوصی ایلچی برائے مغوی افراد ایڈم بوہلر اور افغانستان کے لیے سابق امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد شامل تھے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکی وفد کا استقبال کیا اور ان کے ساتھ اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات کے دوران خاص طور پر قیدیوں کی رہائی اور دو طرفہ تعلقات کے مستقبل پر بات چیت ہوئی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں طالبان نے ایک امریکی شہری جارج گلیزمن کو رہا کر دیا، جسے 2022 میں کابل میں طالبان نے حراست میں لیا تھا۔ افغان میڈیا کے مطابق جارج گلیزمن کی رہائی میں قطر نے اہم سفارتی کردار ادا کیا اور اس معاملے کو حل کروانے کے لیے پس پردہ کوششیں کیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے اس پیش رفت کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم پیش رفت ہے، تاہم امریکی حکام نے اس بات کی تصدیق کی کہ اب بھی چند امریکی شہری افغانستان میں قید ہیں۔ واشنگٹن نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ ان قیدیوں کی رہائی کو بھی یقینی بنائیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے عمل کو مزید فروغ دیا جا سکے۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ افغانستان ایک متوازن خارجہ پالیسی پر گامزن ہے اور وہ امریکا سمیت دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی حکمت عملی اپنانی چاہیے تاکہ دو طرفہ تعلقات میں پائی جانے والی بے اعتمادی کو کم کیا جا سکے۔
امیر خان متقی نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کو گزشتہ بیس سالہ جنگ کے اثرات سے نکلنے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں مثبت سیاسی و اقتصادی تعلقات قائم کرنے کے لیے ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہے اور اس مقصد کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
طالبان حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق افغانستان میں قیام امن اور اقتصادی ترقی کے لیے بین الاقوامی سطح پر رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے اور امریکا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے امکانات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم مغربی ممالک کی طرف سے اب تک طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے دو طرفہ سفارتی تعلقات میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔
یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست سفارتی ملاقاتیں محدود رہی ہیں، تاہم حالیہ رابطے اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ دونوں فریق ایک نیا مکالمہ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان میں استحکام، انسانی حقوق، اور دیگر امور پر اختلافات کے باوجود اس قسم کے سفارتی روابط دو طرفہ تعلقات میں کسی مثبت پیش رفت کا اشارہ دے سکتے ہیں۔