Follw Us on:

شاندار ماضی رکھنے والے اسٹیڈیمز جو بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
جناح اسٹیڈیم سیالکوٹ 1920 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا،فوٹو:اے ایچ گروپ

پاکستانی اورکرکٹ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں،یہ ایسے ہے جیسے کرکٹ پاکستانیوں کے لیے بنی ہے اور پاکستانی کرکٹ کے لیے بنے ہیں،ملک پاکستان میں جگہ جگہ کرکٹ کے دیوانے نظر آتے ہیں جوصبح سے شام تک کھیلتے ہیں مگر تھکاوٹ انھیں چھوکر بھی نہیں گزرتی۔

چھٹی کا دن ہواورکوئی عوامی اسٹیڈیم یا گراؤنڈ آپ کو ویران پڑا مل جائے ایسا نہیں سکتا۔ پی ایس ایل اور عالمی ٹیموں کے ملک میں میچز منعقد ہونے کے بعد ملکی اسٹیڈیمز کی شان و شوکت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے مگر کچھ گراؤنڈز ایسے بھی ہیں جو کبھی دنیا کی توجہ کا مرکز ہوا کرتے تھے اور اب ان کی طرف جانے کو تیار نہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد 28 جولائی 1952کو انگلینڈ کے لارڈز میں منعقد ہونے والی امپیریل کرکٹ کانفرنس کے سیشن کے دوران پاکستان  بھی عالمی ٹیموں میں شامل ہوگیا۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں شمولیت کے بعد ایک جانب پاکستان نے مختلف ممالک میں جاکر میچز کھیلے ،وہیں دوسری جانب پاکستان میں بھی مختلف میچز ہوئے۔ کرکٹ کے فروغ کے لیے ان میچزکومختلف شہروں کے 20اسٹیڈیمز میں منعقد کرایا گیا مگر پچھلی دو دہائیوں سے کوئی انٹرنیشنل میچ نہ ہونے کے سبب ان اسٹیڈیمزپرآج گلی محلے کی کرکٹ کھیلی جارہی ہے۔  

3 مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہونے والےدہشت گردحملے کے بعد عالمی ٹیموں نے دورہ کرنے سے انکار کردیا۔ عالمی میچز کی میزبانی نہ کرنے کی وجہ سے یہ اسٹیڈیمزعالمی معیار کے مطابق نہ رہے اور گزرتے وقت کے ساتھ مزید بدترہوتے گئے۔

عالمی ٹیموں کو پاکستانی سرزمین پر لانے میں پی ایس ایل نے اہم کردار ادا کیا۔2017 کے دوسرے ایڈیشن میں فیصلہ کیا گیا کہ فائنل پاکستان کے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا  جائے گا۔ ملک میں عالمی کھلاڑیوں کو لانے کی جانب یہ پہلا قدم تھا۔

چیمپئن ٹرافی کی میزبانی قذافی سٹیڈیم لاہور کرے گا،فوٹو:پی سی بی

2018  میں پی ایس ایل کے تیسرے ایڈیشن  کے 3 آخری میچز ، 2 سیمی فائنل اور فائنل کو پاکستان میں منعقد کیا گیا۔ پی ایس ایل 2019 کے چوتھے ایڈیشن کے آٹھ میچ پاکستان میں رکھے گئے۔

پی ایس ایل 2020 کے پانچویں ایڈیشن کے سارے میچز پاکستان میں منعقد کرائے گئے اورانٹرنیشنل اسٹیڈیم کراچی، لاہور قذافی اسٹیڈیم، ملتان انٹرنیشنل اسٹیڈیم اورراولپنڈی انٹرنیشنل اسٹیڈیم وینیو میں رکھے گئے۔ یوں پاکستان میں سکیورٹی کو لے کر عالمی ٹیموں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

2009 کےبعد2015 میں زمبابوے وہ پہلی ٹیم بنی جس نے پاکستان کا دورہ کیا۔

2017 میں سری لنکن ٹیم نے حادثے کے 8 سال بعد دورہ کرکے پاکستان کو پرامن ملک کے طور پر ظاہر کیا۔ اس کے بعد 2018 میں ویسٹ انڈیز ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔

پی ایس ایل اور عالمی ٹیموں کے دورے کی بدولت پاکستان سیکیورٹی کے حوالے سے مثبت نظر آیا اور اس کے بعد افریقہ، انگلینڈ اورآسٹریلیا سمیت تمام بڑی ٹیموں نے پاکستان کا دورہ کیا۔

پاکستان میں عالمی مقابلے تو شروع ہوگئے مگر چند اسٹیڈیمز کو ہی عالمی میزبانی کا شرف حاصل ہوا، باقی اسٹیڈیمز پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

کھنڈربنتے پاکستان کے عالمی کرکٹ گراؤنڈز

ارباب نیاز اسٹیڈیم پشاور کو 1985 میں انٹرنیشنل کرکٹ کے لئے مختص کردیا گیا۔بیس ہزار نشستیں رکھنے والے ارباب نیاز اسٹیڈیم کا پرانا نام پشاور کلب گراؤنڈ تھا۔ یہاں 1984 سے  لےکراب تک تقریباً 17 ایک روزہ جبکہ 1995سے اب تک تقریباً 7 ٹیسٹ میچ کھیلے جا چکے ہیں۔

  پہلا ٹیسٹ میچ پاکستان اور سری لنکا کے مابین 1995 میں جبکہ آخری ٹیسٹ میچ  قومی ٹیم اور بنگلہ دیش کے مابین 2003میں کھیلا گیا۔ پہلا ایک روزہ میچ 1984 میں  انڈیااور پاکستان کے مابین جبکہ آخری  ایک روزہ میچ 2006 میں انڈیا اور قومی ٹیم کے مابین کھیلا گیا۔ یہ اسٹیڈیم خیبرپختونخوا بورڈ کی ملکیت ہے۔

2018 میں پی ٹی آئی دورِحکومت میں اس اسٹیڈیم کے توسیعی منصوبے کو منظور کیا گیا تھا جس پر گزشتہ مہینوں میں کام شروع کیاگیا ہے۔ایک ارب 39 کروڑ روپے کی لاگت کے ساتھ نیا پویلین ، ہاسٹل اور اکیڈمی کی تعمیر پر کام کیا جارہا ہے۔ مستقبل میں اس اسٹیڈیم پر پی ایس ایل میچز کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بلوچستان کرکٹ ایسوسی ایشن کے نام سے معروف ایوب نیشنل اسٹیڈیم پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں واقع ہے جہاں پر بیس ہزار تماشائیوں کی نشستیں موجود ہیں۔ اس گراؤنڈ میں پہلا ایک روزہ عالمی میچ پاکستان اور انڈیاکے درمیان   1978–79 جبکہ آخری ایک روزہ میچ انڈیا اور پاکستان کے مابین 1984-85 میں کھیلا گیا۔

کرکٹ کے علاوہ اس اسٹیڈیم میں فٹ بال کے میچز منعقد کرائے جاتے ہیں۔

لاہور جم خانہ اورلارنس گارڈن کے نام سے مشہور باغِ جناح ماضی میں انٹرنیشنل کرکٹ میچوں کی میزبانی بھی کرچکا ہے۔ اس اسٹیڈیم کو 1985 میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہاں پر 8000 لوگوں کے بیٹھنے کے لیے نشستیں موجود ہیں۔ یہ اسٹیڈیم اصل میں لارنس گارڈن کے اندر موجود ہے جسے برٹش حکومت نے تعمیر کیاتھا۔

یہاں پر پہلا ٹیسٹ میچ 1955 میں پاکستان اور انڈیا کے مابین جبکہ آخری ٹیسٹ میچ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان 1959 میں کھیلا گیا۔

بہاول اسٹیڈیم  بہاولپور کو مقامی سطح پر ڈرنگ اسٹیڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹیڈیم ماضی میں ایک انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ کی میزبانی کرچکا ہے جو انڈیا اور قومی ٹیم کے مابین 1955 میں کھیلا گیا تھا۔

موجودہ بگٹی اسٹیڈیم کوئٹہ کو ماضی میں ریس کورس اسٹیڈیم کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔اس اسٹیڈیم میں آج تک صرف ایک عالمی میچ منعقد ہوا ہے جو کہ ایک روزہ میچ تھا جو 1996 میں پاکستان اور زمبابوے کے درمیان کھیلا گیا۔

ابنِ قاسم باغ اسٹیڈیم ملتان کو حرفِ عام میں اولڈ فورٹ اسٹیڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ ابنِ قاسم باغ اسٹیڈیم ملتان کو   انٹرنیشنل میچوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہے۔  اس اسٹیڈیم میں پہلا ایک روزہ میچ پاکستان اور انڈیا کے درمیان  1982 میں جبکہ آخری آسٹریلیا اور قومی ٹیم کے مابین 1994 کو کھیلا گیاتھا۔

ابن قاسم سٹیڈیم میں انضمام الحق اور سچن ٹنڈولکر نے سینچریاں بنائیں،فوٹو،بی بی سی

یہاں صرف 1 ٹیسٹ میچ منعقد کیا گیا تھا جوکہ 1981 میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا گیا۔موجودہ وقت میں یہاں مقامی سطح پر مختلف کلب کے میچز کرائے جارہے ہیں۔

لائل پوراسٹیڈیم کہلانے والا  اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد  ماضی میں عالمی  میزبان ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔18000 نشستیں رکھنے والے اس اسٹیڈیم کو 1970 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ 1978 میں مرمت کرنے کے بعد اسے صفِ اول کے اسٹیڈیمز میں شمار کیاگیا۔ انگلینڈ کے سابق کپتان مائیک گیٹنگ اور پاکستانی امپائر شکوررانا کے درمیان بدنامِ زمانہ تلخ کلامی اسی اسٹیڈیم میں 1988 میں ہوئی تھی۔

اس اسٹیڈیم پر پہلا ٹیسٹ میچ پاکستان اور انڈیا کے مابین 1978 میں جبکہ آخری ٹیسٹ میچ قومی ٹیم اور انڈیاکے  درمیان2006 میں کھیلا گیا ۔ پہلا ایک روزہ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف 1984 میں جبکہ آخری ایک روزہ میچ بنگلہ دیش کے خلاف 2008 میں قومی ٹیم نے کھیلا۔

جناح اسٹیڈیم سیالکوٹ کو قیامِ پاکستان سے قبل 1920 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس اسٹیڈیم میں 20000 تماشائیوں کے بیٹھنے کے لئے نشستیں موجود ہیں۔

جناح اسٹیڈیم پرپہلا ٹیسٹ میچ 1985 میں سری لنکا جبکہ پہلا ایک روزہ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف 1976 میں کھیلا گیا ۔ یہاں پر آخری ٹیسٹ میچ سری لنکا کے خلاف  1995 جبکہ آخری ایک روزہ میچ نیوزی لینڈ کے خلاف 1996 میں قومی ٹیم نے کھیلا تھا۔

جناح اسٹیڈیم گوجرانوالہ کو میونسپل اسٹیڈیم بھی کہا جاتا ہے۔ اس اسٹیڈیم پر   صرف ایک عالمی ٹیسٹ میچ کھیلا گیا ہےجو قومی ٹیم اورسری لنکا کے مابین 1991 میں منعقد ہوا تھا۔ پہلا ایک روزہ میچ انڈیاکے خلاف 1981میں اور آخری سری لنکا کے خلاف 2000 میں قومی ٹیم نے کھیلا تھا۔

جناح اسٹیڈیم گوجرانوالہ کو میونسپل اسٹیڈیم بھی کہا جاتا ہے،فوٹو:فیس بک

نیازاسٹیڈیم حیدرآباد سندھ  کو 1962 میں تعمیر کیا گیا تھا۔اس پر پہلا ٹیسٹ میچ  انگلینڈ کے خلاف 1973 میں جبکہ آخری ٹیسٹ میچ  نیوزی لینڈ کے خلاف 1984 میں کھیلا گیا۔

 پہلا ایک روزہ میچ 1982 میں آسٹریلیا کے خلاف جبکہ آخری ایک روزہ میچ 2008 میں قومی ٹیم نے  زمبابوے کے خلاف کھیلا ۔ یہاں پر 20000 شائقینِ کرکٹ کے لئے بیٹھنے کی جگہ موجود ہے۔

سروسز گراؤنڈ کہلانے والے پشاور کلب گراؤنڈ میں آج تک ایک انٹرنیشنل میچ کھیلا گیا ہے جو 1955 میں انڈیا اور قومی ٹیم کے درمیان منعقدہ ٹیسٹ میچ تھا۔

پنڈی کرکٹ کلب گراؤنڈکو آرمی اسپورٹس گراؤنڈ بھی کہا جاتا ہے۔ اس اسٹیڈیم پر ماضی میں ایک ہی ٹیسٹ میچ منعقد ہوا جو 1965 میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین  کھیلا گیا تھا۔

پہلا ایک روزہ میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف 1985 میں جبکہ آخری ایک روزہ میچ1987 میں انگلینڈ کے خلاف قومی ٹیم نے کھیلا۔

صوبہ پنجاب کے شہر شیخوپورہ میں موجود شیخوپورہ اسٹیڈیم  کو 1995 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس اسٹیڈیم میں تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش 15000 ہے۔

یہاں پر پہلا ٹیسٹ میچ 1996 میں زمبابوے کے خلاف جبکہ آخری ٹیسٹ میچ 1997 میں جنوبی افریقہ کے خلاف قومی ٹیم نے کھیلا۔ پہلا ایک روزہ میچ 1998 کو زمبابوے کے خلاف جبکہ آخری ایک روزہ میچ 2008 میں زمبابوے کے خلاف ہی قومی کرکٹ  ٹیم نے کھیلا۔

ڈیفنس کرکٹ اسٹیڈیم کہلانے والے ساؤتھنڈ کلب کرکٹ اسٹیڈیم

میں آج تک ایک ہی ٹیسٹ میچ منعقد ہوا ہے جو 1993 میں زمبابوے کے خلاف قومی ٹیم نے کھیلا۔

ظفر علی اسٹیڈیم ساہیوال  کو 1955 میں تعمیر کیا گیا تھا اور یہاں پر تماشائیوں کے لئے 35000 نشستیں موجود ہیں۔ ماضی میں اس اسٹیڈیم میں صرف ایک روزہ میچ ہی کھیلے گئے ہیں۔ پہلا ایک روزہ میچ  انگلینڈ کے خلاف 1977 کو جبکہ آخری انڈیاکے خلاف 1978 میں شاہینوں نے کھیلا۔

شاندار ماضی رکھنے والے ان اسٹیڈیمز پر آج یاتو کلبوں کے یا پھر چھوٹی موٹی لیگز کے میچز کرائے جارہے ہیں۔ جہاں باقی اسٹیڈیمز پر توجہ دے کر انھیں عالمی معیار کے مطابق بنایا گیا ہے ان پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہر شہر کے گراؤنڈز پر عالمی کھلاڑی کھیلتے ہوئے نظر آئیں اور مقامی شہریوں میں جوش وجزبہ پیدا ہو۔

چاہے کھیل کے میدان ہوں یا سرحدوں پر لڑی جانے والی جنگ ہو،ہر حوالے سے’پاکستان میٹر‘کرتا ہے اور پاکستان میٹرز ہی دنیا کے سامنے سچ لا سکتا ہے کیوں کہ سچ ہی پاکستان بدل سکتا ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس