Follw Us on:

ایران اور امریکا میں ’مذاکرات‘ کے دروازے کھلنے کا امکان

حسیب احمد
حسیب احمد

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اعلان کیا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدہ ایک نئی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے بشرطیکہ امریکا اپنی پوزیشن میں نرمی لائے اور سنجیدہ مذاکرات کا حصہ بنے۔ 

یہ بیان انہوں نے اس وقت دیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو اپنے دباؤ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکا اور ایران کے درمیان عمان میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔

عراقچی نے کہا کہ “اگر امریکا نے اچھے ارادے کے ساتھ بات چیت کی تو ہم معاہدہ کر سکتے ہیں لیکن یہ بات چیت صرف اس صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب امریکا اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے اور ایران پر عائد سخت پابندیاں ختم کرے‘‘۔

امریکا نے 2018 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ایرانی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور ایران نے جوہری پروگرام میں تیزی سے پیشرفت شروع کر دی۔ لیکن اب پانچ سال بعد موقع آیا ہے جس میں امریکا نے ایران کے ساتھ براہ راست بات چیت کی تجویز دی ہے حالانکہ ایران اس صورت میں بات چیت کو بے معنی سمجھتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہاہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا ایک نیا دروازہ کھل سکتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ “اگر بات چیت کامیاب نہیں ہوئی تو ایران کو خطرہ ہو گا اور میں یہ نہیں چاہتا، مگر اگر معاہدہ نہ ہوا تو بمباری ہو سکتی ہے۔” 

ٹرمپ کے اس بیان کے بعد عالمی سطح پر ایک ہلچل مچ گئی ہے اور ایران نے اس دھمکی کو سختی سے رد کیا۔

روس اور چین نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے مشاورت کا آغاز کیا ہے اور دونوں ممالک نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ ایران اور امریکا کے درمیان دوبارہ  مذاکرات ہونے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ روسی حکومت نے اس بات کا عندیہ دیا کہ یہ مذاکرات ایران کے جوہری مسئلے پر کشیدگی کم کرنے کی سمت میں اہم قدم ہو سکتے ہیں۔

چین نے بھی امریکا پر تنقید کی ہے کہ “امریکا کو اپنے غلط اقدامات کو ترک کر دینا چاہیے اور طاقت کا استعمال ختم کر دینا چاہیے۔” 

چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کو ایران کے ساتھ مذاکرے میں سنجیدہ ہونا چاہیے اور ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایک پائیدار حل تک پہنچنا چاہیے۔

اس صورتحال میں ایران کی نظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا اپنی پابندیاں ختم کرے اور ایران کے جوہری حقوق کا احترام کرے۔ 

عراقچی نے یہ واضح کیا کہ “ہم براہ راست مذاکرات کو قبول نہیں کرتے اور ہمارے لیے یہ زیادہ اہم نہیں کہ مذاکرات کا طریقہ کیا ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ان مذاکرات سے کیا نتائج نکلتے ہیں۔”

اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اور ایران اپنے اختلافات کو حل کر پائیں گے یا عالمی برادری کو ایک اور جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا؟ 

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس