غزہ پر 15 ماہ سے جاری اسرائیلی حملے ایک معاہدے کے بعد ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے۔ قطر میں حماس اور اسرائیلی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اس کے بعد ‘کون جیتا، کون ہارا’ کی بحث نے معاملے کے دیگر پہلوؤں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔
قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان التھانی نے قطر میں بدھ کی رات کو پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ معاہدے کا آغاز 19 جنوری سے ہوگا۔ دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیرس اور وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے ہمراہ پریس کانفرنس میں اس معاہدے کی تصدیق کی ۔
سماجی رابطے کی ایپ ایکس(سابقہ ٹویٹر) پہ اوسنٹ ڈیفینڈر کے نام سے صارف نے اپنے ٹویٹ میں معاہدے کی تفصیلات جاری کیں ۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ “غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے مسودے میں، جسے آج رات مذاکرات کے قریب ایک فلسطینی نے لیک کیا تھا، اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کے آبادی والے علاقوں سے انخلاء پر راضی ہے۔
جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران، تقریباً چھ ہفتے تک جاری رہنے والے، کل 33 یرغمالیوں (زندہ اور مردہ) کو رہا کیا جائے گا، ہر یرغمال کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے 30 فلسطینی نابالغ اور خواتین، اور ہر ایک خاتون اسرائیلی فوجی کے لیے 50 قیدی رہا کیے جائیں گے۔ چھٹے ہفتے تک، اسرائیل 2011 کے قیدیوں کے تبادلے کے بعد گرفتار کیے گئے 47 فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ 7 اکتوبر 2023 سے گرفتار ہونے والی خواتین اور بچوں کو رہا کر دے گا۔
جنگ بندی سے متعلق تجویز کردہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ بارہویں ہفتے کے تیسرے مرحلے کے دوران، یرغمالیوں کی کوئی بھی اضافی لاش اسرائیل کو واپس کر دی جائے گی۔
مصر، قطر اور اقوام متحدہ کی قیادت میں اگلے 3سے5 سالوں میں غزہ کی پٹی کے لیے تعمیر نو کا منصوبہ نافذ کیا جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ معاہدہ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ یقین نہیں ہے کہ غزہ میں 94 یرغمالیوں میں سے 30 سے زیادہ باقی ہیں، جو ابھی تک زندہ ہیں”۔
اس ٹویٹ کے ریپلائز میں بہت سے لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کوئی اسے اسرائیل کی ہار بتا رہا تھا تو کوئی نیتن یاہو کو مستعفی ہونے کےلیے کہہ رہا تھا۔ ایتھائی ریوبینوف نامی صارف نے لکھا کہ “مجھے امید ہے نیتن یاہو کچھ اور سوچ رہا ہے اگر نہیں تو یہ اس کے سیاسی کرئیر کا خاتمہ ہے” ۔ ایک اوراسرائیلی صارف نے لکھا کہ “مجھے سمجھ نہیں آتا کہ اسرائیل اس کو مان کیسے سکتا ہے”۔ سورن لانکو نامی اسرائیلی صارف نے لکھا کہ “اگر وہ ایسے اپنے ملک کی بعزتی کر رہا ہے تو نیتن یاہو کو فوراً استعفی دے دینا چاہیے”۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ میں دونوں فریقین کا بہت نقصان ہوا ہے۔ دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ عالمی عدالت کی جانب سے اسرائیل کے حملوں کی شدید مذمت کی گئی اور ہتھیار روکنے جیسی پابندیاں لگائی گئی۔ اسرائیل کو امریکہ کی مسلسل سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ سے اسرائیل نے بے جا حملے کیے اور پچاس ہزار کے لگ بھگ فلسطینی مارے گئے۔
پاکستان سمیت مختلف ممالک نے جنگ بندی کے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ جنگ بندی امن و استحکام لائے گی۔
حماس کی جانب سے بیان میں یہ کہا گیا کہ ” اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کی قیادت نے فلسطینی گروہوں کے رہنماؤں کے ساتھ رابطوں اور مشاورت کا ایک سلسلہ منعقد کیا اور انہیں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ فورسز اور گروہوں کے رہنماؤں نے مذاکرات کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اگلے مرحلے اور اس کے تقاضوں کے لیے تیاری کی ضرورت پر زور دیا۔
تحریک کی قیادت اور مختلف ممالک نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی تکمیل تک رابطے اور مشاورت جاری رکھنے پر زور دیا، جو اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکا ہے، اس امید کا اظہار کرتے ہوئے کہ مذاکرات کا یہ دور ایک واضح اور جامع معاہدے کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا”۔