سپریم کورٹ نے جمعے کو ایک مقدمے کے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کا استعمال انصاف کی فراہمی کو بہتر بنا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے احتیاط ضروری ہے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اے آئی کے ذریعے عدالتی نظام کی کارکردگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے، خاص طور پر ضلعی عدالتوں میں جہاں مقدمات کی بھرمار ہے اور فیصلوں میں تاخیر معمول بن چکی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اے آئی کو ایک مددگار کے طور پر اپنایا جا سکتا ہے، جیسے قانونی تحقیق، مسودہ نویسی، مقدمات کی منصفانہ تقسیم اور فیصلوں میں یکسانیت کے لیے۔ لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ اے آئی انسانی فیصلوں کی جگہ نہیں لے سکتا کیونکہ اس میں ہمدردی، اخلاقی شعور اور انسانی دکھ کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
عدالت نے واضح کیا کہ انصاف کے عمل میں اے آئی صرف ایک سہولت فراہم کرنے والا ذریعہ ہونا چاہیے، نہ کہ حتمی فیصلہ کرنے والا۔ کیونکہ اگر اے آئی کو بغیر نگرانی کے استعمال کیا گیا تو یہ عدالتی آزادی اور انصاف پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اے آئی کے ذریعے عدالتی نظام میں شفافیت اور کارکردگی تو آ سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ تعصب جیسے خطرات بھی جڑے ہوئے ہیں، اس لیے اس کے استعمال کے لیے ایک مضبوط اصولی اور اخلاقی فریم ورک ہونا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے تجویز دی کہ قومی عدالتی پالیسی کمیٹی اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان مل کر عدالتی نظام میں اے آئی کے استعمال کے لیے جامع رہنما اصول تیار کریں تاکہ انسانی وقار، آئینی اصولوں اور عوامی اعتماد کو برقرار رکھا جا سکے۔
عدالت نے اپنے فیصلے کے اختتام پر کہا کہ اے آئی کا محتاط اور اصولی انداز میں خیر مقدم کیا جانا چاہیے، لیکن انصاف کے عمل میں انسانی شعور اور ہمدردی کی جگہ کبھی نہیں لی جا سکتی۔