جنگ سے جھلسے یوکرینی شہر “سومی” میں خوفناک روسی میزائل حملہ ہوا تھا جس میں 35 شہری جان سے گئے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے اس حملے سے اگلے ہی روز ٹرمپ نے اس سانحے کو محض “غلطی” قرار دے دیا اور سارا الزام یوکرینی صدر ولادیمیر زلنسکی پر ڈال دیا۔
ٹرمپ نے سخت لہجے میں کہا کہ “وہ ہر وقت میزائل خریدنے کے چکر میں رہتا ہے۔ جب آپ جنگ چھیڑتے ہیں تو پہلے یہ جان لینا ضروری ہوتا ہے کہ کیا آپ جیت بھی سکتے ہیں یا نہیں۔ آپ ایک ایسی طاقت سے ٹکرا جاتے ہیں جو آپ سے بیس گنا بڑی ہے اور پھر امید لگاتے ہیں کہ دنیا آپ کو میزائل بھیج دے گی؟”
یہ الفاظ اس وقت ادا کیے گئے جب ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں سلواڈور کے صدر نائیب بوکیلے کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن، امریکی سابق صدر بائیڈن اور زلنسکی، تینوں کو یکساں طور پر جنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران جوہری خواب چھوڑ دے ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی
ٹرمپ نے کہا ہے کہ “لاکھوں لوگ مر گئے اور وجہ صرف یہ تین لوگ ہیں۔” حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں ملینز نہیں بلکہ چند لاکھ ہیں، مگر ٹرمپ نے بار بار دعویٰ کیا کہ یہ تعداد “ملینز” میں ہے۔
دوسری جانب زلنسکی کے دفتر نے اس بیان پر فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا لیکن کچھ دن قبل انہوں نے ایک انٹرویو میں ٹرمپ کو کھلے لفظوں میں یوکرین آنے کی دعوت دی تھی۔
انکا کہنا تھا کہ “آپ یہاں آئیے، زخمیوں، یتیم بچوں، تباہ شدہ کلیساؤں اور اسپتالوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیے۔ پھر بات کیجیے امن کی۔”
اس کے علاوہ روس نے دعویٰ کیا ہے کہ سومی پر حملہ یوکرینی فوجیوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا مگر اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ یوکرین نے اس حملے کو 2025 کا اب تک کا سب سے ہولناک حملہ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ اگرچہ امن کی بات کرتا ہے لیکن ان کے بیانات سے یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ وہ روس کے بیانیے سے ہم آہنگی رکھتا ہے۔
نیٹو ممالک اور امریکی کانگریس میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ کہیں امریکا کی خارجہ پالیسی کسی خطرناک موڑ پر نہ آ جائے۔
مزید پڑھیں: جنگ بندی کی تجویز: حماس کا ’ضروری مشاورت‘ کے بعد جواب دینے کا عندیہ