پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پاکستانی صحافیوں کے خلاف فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے اور ان کی شہریت پر بھی نظرثانی ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر ممکن نہیں، اس لیے اگر کسی نے غیر قانونی طریقے سے یا جعلی دستاویزات کے ذریعے سفر کیا ہے تو اس کا جائزہ لے کر کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی صورت میں سفری پابندیوں سمیت کئی قانونی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق مارچ کے وسط میں ایک دس رکنی پاکستانی وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا جس میں صحافیوں، محققین اور دیگر افراد نے شرکت کی۔ وفد میں شامل صحافیوں میں سبین آغا، کسور کلاسرا، قیصر عباس، شبیر خان اور مدثر شاہ شامل تھے۔ اس دورے پر پاکستان کی صحافتی تنظیموں نے شدید ردعمل دیا ہے۔
طلال چوہدری نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ون ڈاکومنٹ رجیم 2023 کے تحت دوسرے مرحلے میں یکم اپریل سے 15 اپریل تک ستر ہزار افراد کو پاکستان سے ان کے آبائی ممالک بھیجا گیا ہے۔ ان کے مطابق تیسرے مرحلے میں پاکستان اوریجن کارڈ کے لیے کاروائیاں ہوں گی جس کی آخری تاریخ 30 جون ہے۔ پہلے مرحلے میں آٹھ لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ افغان باشندوں کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا صرف غریب افغان باشندوں کو ہی نکالا جا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ پالیسی سب پر لاگو ہے اور حکومت کے پاس تمام ڈیٹا موجود ہے۔ ان کے مطابق دہشت گردی اور منشیات کے کئی معاملات میں افغان باشندے براہ راست یا بالواسطہ ملوث پائے گئے ہیں اور پاکستان کو منشیات کی ترسیل کے لیے ایک راستے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان پر بلوچ لبریشن آرمی کا سافٹ فیس ہونے کا شبہ ہے اور وزارت داخلہ کے پاس ایسے کئی شواہد موجود ہیں۔ ان کے مطابق ماہ رنگ بلوچ بی ایل اے کی مذمت نہیں کرتیں اور ان کے عمل اور بیانات میں واضح تضاد ہے۔ انہوں نے جعفر ایکسپریس حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے میں مارے جانے والے دہشت گردوں کو مسنگ پرسنز قرار دے کر ہنگامہ کھڑا کیا گیا لیکن اصل شہداء کی مذمت نہیں کی گئی۔
پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی کی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش پر طلال چوہدری نے کہا کہ مذاکرات اعتماد پر ہوتے ہیں اور جب کوئی جماعت اپنے قول و فعل میں تضاد رکھتی ہو تو اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب سزا کے قریب ہوتے ہیں تو مذاکرات کا شور مچانا دراصل این آر او مانگنے کے مترادف ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے واضح کر دیا ہے کہ بات چیت سیاسی حکومت کرے گی اور مذاکرات پارلیمان کے اندر ہوں گے۔