Follw Us on:

کینال منصوبہ کے خلاف عدالتوں میں ہڑتال: ’لگتا ہے پورے سندھ کو موئن جوداڑو بنادیں گے‘

دانیال صدیقی
دانیال صدیقی

سندھ بار کونسل کی کال پر کراچی بار کی سٹی کورٹ میں ہڑتال کے دوران وکلاء کام بند کردیا، سٹی کورٹ کراچی کے وکلاء کے عدالتوں میں پیش نہ ہونے سے کارروائی ٹھپ ہوکر رہ گئی۔ 

سندھ بارکونسل نے نہروں کی تعمیرکے معاملے پرغیرمعینہ مدت کیلئے عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جس کے باعث سٹی کورٹ میں ہڑتال کے دوران وکلا نےکورٹ کے داخلی دروازے بند کردیے۔

 دوسری جانب  عدالت کے باہر سائلین کا رش لگ گیا اور عدالتی کارروائی معطل کردی گئی ہے۔

سندھ بار کونسل کے مطابق  وکلابرادری کے مطالبات تسلیم نہ ہونے تک عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔

دریائے سندھ پر وفاقی حکومت کی جانب سے کینال بنانے کے خلاف خیرپور ببرلو بائی پاس پر وکلا کا دھرنا دوسرے روز بھی جاری ہے۔ کراچی بار سمیت سندھ کے دوسرے شہروں  سے بھی  وکلا احتجاج میں شریک ہیں۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کے سابق سیکرٹری ایڈوکیٹ حسیب جمالی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت 1991 ایکارڈ کے مطابق سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہیں دے سکی ہے اور اب ایک غیر قانونی عمل کے نتیجے میں یہ سندھ کے وسائل حاصل کرنا چاہ رہے ہیں ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ دیہی اور شہری سندھ میں پانی کی شدید قلت ہے کراچی میں لوگ بھاری قیمت پر ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں اور اگر ایسی صورتحال میں کینال بنا کر دو لاکھ ایکڑ کو سیراب کرنے  کی کوشش کی گئی تو سندھ کے لوگ پانی سے محروم ہوجائیں گے یہاں کا کسان کس طرح زندگی گزارے گا؟

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق بدین، ٹھٹھہ اور سجاول یہ وہ ضلع ہیں جہاں اگلے 12 برس میں زمین کاشت کاری کے قابل نہیں رہے گی۔  پہلے ہی کئی ایکڑ پر زمینیں سیم و تھور کا شکار ہیں جن پر حکومت کاشت کاری نہیں کرسکتی ایسی صورتحال میں کینال بنانا سندھ کی عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔

مزید پڑھیں: ہر تنظیم اور گروپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ سڑکیں بند نہ کریں، شرجیل انعام میمن

 دنیا  بھر میں زمینوں کی تقسیم کے حوالے سے مؤثر پالیسی ترتیب دی جاتی ہے۔ سندھ لینڈ کلونائزیشن 1912 اس کی مثال ہے جس کے تحت مکمل ضابطے اور مقررہ وقت کے تحت حکومت زمین لوگوں کو فراہم کرتی ہے جس میں اس کا مقصد بھی تحریر کیا جاتا ہے اور عمومی طور پر یہ سب زمینیں مقامی لوگوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔

 حسیب جمالی نے مزید بتایا کہ اس کینال کے منصوبے میں کسی بھی قسم کی پالیسی ترتیب نہیں دی گئی اور نا ہی کوئی نوٹیفیکیشن فراہم کیا گیا ہے کوئی نہیں جانتا یہ زمینیں  کن لوگوں کے حوالے کی جائیں گی۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے اس منصوبے کا افتتاح تو کردیا ہے مگر اس فیصلے سے پہلے عوام کے بارے میں نہیں سوچا گیا  لگتا ہے یہ پورے سندھ کو موئن جو داڑو بنا دیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے کا ہر طبقہ ہمارے ساتھ شامل ہو یہ ہمارے مستقبل کا فیصلہ ہے۔ وفاقی حکومت ملک میں زمینداری کے نظام کو لانا چاہتی ہے سندھ میں چھوٹے ہاری کی زمینیں پہلے ہی پانی سے محروم رہتی ہیں۔ جب تک حکومت اس فیصلے کو واپس نہیں لیتی یہ دھرنا جاری رہے گا۔ ہم اس احتجاج کے درائرہ کار کو مزید وسعت دیتے ہوئے  بندرگاہوں کو بند کرنے کے معاملے پر بھی غور کر رہے ہیں۔

لگتا ہے پورے سندھ کو موئن جوداڑو بنادیں گے’

ایڈوکیٹ اشتیاق جتوئی کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو 72 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا ہے ہمارے مطالبات سندھ کی عوام کے لیے ہیں۔ سندھ میں کینالز بنانا مکمل طور پر ٖغیر قانونی ہے سب سے زیادہ  متاثر کراچی کے لوگ ہوں گے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر زمینداروں کو زمینیں فراہم کی جارہی ہیں یہ عام کسان کا معاشی استحصال ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سے حکومت نے عدلیہ بھی اپنے زیر اثر کرلیا ہے۔ ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو ریلوے لائن بند کردیں گے۔

انجمن اساتذہ جامعہ کراچی  کے سیکرٹری ڈاکٹر معروف بن رؤف کے مطابق یہ دھرنا، سندھ کے زرعی، ماحولیاتی اور مقامی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا ۔

جامعات صرف تعلیم و تحقیق کے مراکز ہی نہیں بلکہ اسی کے ساتھ  معاشرتی شعور، انصاف اور جمہوری قدروں کی نرسریاں بھی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم، مقامی خودمختاری اور ماحولیاتی توازن کا تحفظ صرف کسانوں، وکلا یا ماہرینِ ماحولیات کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہم سب کی مشترکہ قومی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے مزید  کہا دھرنے میں جامعات کے  اساتذہ وفود  بھی شرکت کر رہے ہیں سندھ کی علمی برادری اپنی زمین، پانی اور زبان کے تحفظ کے لیے ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرے گی۔ ہم تمام تعلیمی اداروں، اساتذہ اور طلبہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد کو صرف ایک احتجاج نہ سمجھیں، بلکہ اسے اپنی تاریخی، ثقافتی اور ماحولیاتی بقاء کی تحریک سمجھ کر اس کا حصہ بنیں۔

بطور صوبہ سندھ کے شہری، ہم ملک اور صوبہ کے اجتماعی مفاد میں ہر اس چیز کے ساتھ ہیں جو اس ملک اور صوبہ کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

گزشتہ دنوں  سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن سے مشیر وزیر اعظم رانا ثنا ء اللہ نے ٹیلوفونک رابطہ بھی کیا تھا  اور معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔

رانا ثنا اللہ کا  کہنا تھا کہ کہ کسی صوبے کا پانی دوسرے صوبے کو نہیں دیا جا سکتا، پانی کی تقسیم انتظامی اورتکنیکی مسئلہ ہے، حل بھی انتظامی اور تکنیکی بنیادوں پر نکالا جائے گا۔کسی صوبے کی حق تلفی ممکن نہیں، صوبوں کے تحفظات دور کئے جائیں گے، مشاورت کے عمل کو مزید وسعت دی جائے گی۔

دانیال صدیقی

دانیال صدیقی

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس