ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے بعد امریکا میں تعلیمی ماحول خاص طور پر چینی طلباء کے لیے خطرناک حد تک بدل گیا ہے۔ ویزوں کی منسوخی، تعلیمی اداروں کے بجٹ میں کٹوتیاں اور سب سے بڑھ کر چینی طلباء کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرنا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد 4,700 سے زائد طلباء کو امریکی امیگریشن ڈیٹا بیس سے حذف کر دیا گیا جو ان کی ملک بدری کا راستہ ہموار کرتا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی چائنا پر خصوصی کمیٹی نے حال ہی میں چھ اعلیٰ یونیورسٹیوں کو خط لکھ کر ان سے استفسار کیا کہ وہ چینی طلباء کو جدید سائنسی اور تکنیکی پروگرامز میں داخلہ کیوں دیتی ہیں۔
کمیٹی کے چیئرمین جان مولینار نے دعویٰ کیا کہ امریکی ویزہ سسٹم “بیجنگ کے لیے ایک ٹروجن ہارس” بن چکا ہے۔
اس سب کے بیچ، امریکی کانگریس میں پیش کیے گئے “Stop Chinese Communist Prying Act” جیسے بلز، چینی طلباء کے لیے تعلیم کے دروازے مکمل بند کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
بیجنگ نے واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ “قومی سلامتی کے نام پر امتیازی اور محدود اقدامات” بند کرے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے یوکرین کی نیٹو رکنیت مسترد کردی
چین کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات بین الاقوامی تعلیم کی روح کے منافی ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی تبادلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی کے پروفیسر چن ییران نے کہا کہ “یہ سراسر غلط تاثر ہے کہ چینی طلباء یہاں آکر امریکا کی تحقیق چوری کرکے چین واپس چلے جاتے ہیں۔”
اُن کے مطابق “زیادہ تر طلباء متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنی تعلیم پر کروڑوں یوان خرچ کرتے ہیں تاکہ یہاں رہ کر بہتر مستقبل بنا سکیں۔”
نیویارک میں قائم غیر منافع بخش تنظیم “کمیٹی آف 100” نے بھی امریکی قانون سازوں کو متنبہ کیا ہے کہ ایسے اقدامات امریکا کی سائنسی و تکنیکی قیادت کو کمزور کریں گے۔
ایک طرف طلباء کی حفاظت پر سوالات اٹھ رہے ہیں تو دوسری جانب مالی بوجھ بھی ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔
ویزہ منسوخ ہونے کے بعد طلباء کو اچانک ملک بدر کیے جانے کا خوف، کیمپسز میں امتیازی سلوک، اور اسکالرشپ کی عدم دستیابی نے اُنہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے خوابوں کو یا تو دفن کریں یا کہیں اور نئی امید کی تلاش کریں۔
2023 میں چینی طلباء نے امریکی معیشت میں 14.3 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا۔ پندرہ سال تک امریکا میں سب سے بڑی بین الاقوامی طلباء کی کمیونٹی چین کی تھی مگر گزشتہ سال انڈیا نے یہ مقام حاصل کر لیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو امریکی تعلیمی ادارے اور معیشت دونوں کو طویل المدتی نقصان پہنچ سکتا ہے۔