سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ شادی کے موقع پر دلہن کو دی جانے والی تمام اشیاء، چاہے وہ جہیز کی صورت میں ہوں یا برائیڈل گفٹس کے طور پر، وہ دلہن کی مکمل اور غیر مشروط ملکیت تصور ہوں گی۔ ان اشیاء پر شوہر یا اُس کے اہلخانہ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے۔
یہ فیصلہ جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل بینچ نے سنایا، جو شمسہ اصغر نامی خاتون کے سابق شوہر محمد ساجد کے خلاف دائر کیے گئے جہیز اور نان نفقہ کے مقدمے سے متعلق تھا۔
عدالت کے مطابق دلہن کو دی گئی ہر شے, خواہ وہ والدین کی جانب سے ہو یا دولہا یا اس کے خاندان کی طرف سے, دلہن کی ملکیت شمار ہوگی۔ البتہ اگر کوئی تحفہ دولہا یا اُس کے خاندان کو دیا گیا ہو، تو وہ نہ جہیز تصور ہوگا اور نہ ہی دلہن کو واپس دیا جا سکتا ہے۔
شمسہ اصغر نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے والدین نے نکاح کے وقت مکمل جہیز فراہم کیا، جس میں قیمتی اشیاء شامل تھیں، مگر طلاق کے بعد وہ اشیاء واپس نہیں دی گئیں۔ عدالت نے اس حوالے سے 1976 کے ڈاؤری اینڈ برائیڈل گفٹس (ریسٹرکشن) ایکٹ کا حوالہ دیا، جس کے مطابق جہیز، برائیڈل گفٹس اور عام تحائف میں واضح فرق موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عظمیٰ بخاری کا چولستان کینالز منصوبے پر سندھ کو جواب، “سیاست نہ کریں، منصوبہ صدر سے منظور شدہ ہے”
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صرف وہ اشیاء جو دلہن کو دی گئی ہوں، ان کی بازیابی فیملی کورٹس ایکٹ کے تحت ممکن ہے۔ اس موقع پر عدالت نے آئین پاکستان کی اُن دفعات کا بھی حوالہ دیا جو خواتین کے جائیدادی حقوق، مساوات اور تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں۔
عدالت نے واضح کیا کہ اس فیصلے کا مقصد جہیز کی روایت کو فروغ دینا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دلہن کو دی گئی اشیاء پر اُس کا مکمل حق برقرار رہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صرف حق مہر لازم ہے، جبکہ جہیز اکثر معاشرتی دباؤ اور ناانصافی کی علامت بن چکا ہے۔
فیصلے کے مطابق محمد ساجد کو دی گئی اشیاء چونکہ دلہن کے لیے مخصوص نہیں تھیں، لہٰذا ان کی بازیابی ممکن نہیں۔ عدالت نے ابتدائی عدالتوں کے فیصلے کو جزوی طور پر برقرار رکھتے ہوئے شمسہ اصغر کے کچھ مطالبات تسلیم کیے اور باقی اشیاء کو مقدمے سے خارج کر دیا۔