فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک غیر معمولی خطاب میں حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ نہ صرف اپنے ہتھیار ڈال دے بلکہ غزہ کا انتظام بھی فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں امن کی نئی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں اور عالمی طاقتیں فلسطینی قیادت کی نئی سمت کے شدت سے منتظر ہیں۔
صدر محمود عباس نے بدھ کے روز فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کی سنٹرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “حماس کو چاہیے کہ وہ غزہ کی ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی کو سونپے، ہتھیار ڈالے اور ایک سیاسی جماعت کی شکل اختیار کرے۔”
یہ پہلا موقع ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کے آغاز کے بعد عباس نے اتنے دوٹوک انداز میں حماس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر ایک ہلاکت خیز حملہ کیا تھا جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 کے قریب یرغمال بنائے گئے۔
اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید حملے شروع کیے جن میں اب تک 50,000 سے زائد فلسطینی فلسطینی ہو چکے ہیں اور غزہ کا بڑا حصہ کھنڈر بن چکا ہے۔
عباس کا یہ بیان ایک اہم موقع پر سامنے آیا ہے جب وہ نہ صرف اندرونی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں کہ وہ اپنی جانشینی کا اعلان کریں بلکہ مغربی اور عرب طاقتیں بھی چاہتی ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی ایک قابل اعتماد اور فعال ادارہ بن کر ابھرے۔
ان طاقتوں کا اصرار ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو اور حکمرانی ایک بااختیار، شفاف اور متحرک قیادت کے ذریعے کی جائے۔
اسرائیل اور امریکا سمیت کئی عالمی قوتیں پہلے ہی حماس کو غزہ سے بےدخل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاہم اسرائیل نے اب تک فلسطینی اتھارٹی کو بھی غزہ میں کردار دینے سے انکار کیا ہے۔
ایسے میں عباس کی یہ تقریر نہ صرف ایک سیاسی چال ہے بلکہ ایک صاف پیغام بھی ہے کہ وہ حماس سے الگ اپنی حیثیت منوانے کے لیے تیار ہیں۔
صدر عباس نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ”7 اکتوبر کا حملہ ایک بڑی غلطی تھی جس نے اسرائیل کو غزہ کو مٹانے کا بہانہ دے دیا۔”
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ‘کیا فلسطینی عوام ایک بار پھر متحد ہو سکیں گے؟ اور کیا عالمی طاقتیں صدر عباس کو دوبارہ ایک قابل قبول رہنما مانیں گی؟
مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بمباری: بچوں اور خواتین سمیت 45 معصوم فلسطینی شہید