Follw Us on:

پاکستان، انڈیا کشیدگی: کون، کتنا طاقتور، جنگ ہوئی تو جیت کس کی ہو گی؟

اظہر تھراج
اظہر تھراج

22 اپریل بروز منگل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک ایسا واقعہ ہو، جس نے دو ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے۔

حملے کے فوری بعد انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی سعودی عرب کا دورہ ختم کر کے وطن واپس پہنچتے ہیں، ہوائی اڈے پر ہنگامی اجلاس طلب ہوتا ہےاور حملے کا الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔

ترجمان انڈین  وزارتِ خارجہ کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا ہے، اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن سے فوجی مشیروں کو واپس بلا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اٹاری اور واہگہ بارڈر کو بند کیا جارہا ہے، تمام پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا جارہا ہے۔

مودی سرکار اور گودی میڈیا کی جانب سے پاکستان پر الزام عائد کرنے کے بعد اعلان کیا جاتا ہے کہ انڈیا ملوث ہونے والوں کو عبرتناک سزا دے گا اور حملہ کرنے والوں سے رعایت نہیں برتی جائے گی۔

مقامی افراد، کچھ سیاستدان اور آئینی شاہدین  نےاسے فالس فلیگ آپریشن کا نام دے دیا۔

انڈین ریٹائرڈ جنرل کے ایس گل نے کہا ہے کہ سال 2000 میں بی جے پی حکومت نے امریکی صدر بل کلنٹن کو متاثر کرنے کے لیے کشمیر میں ایک منصوبہ بند قتل عام کے ذریعے 25 بے گناہ سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یہ ایک خوفناک سازش تھی، جس میں اپنے ہی شہریوں کی جان لے کر عالمی بیانیہ کو موڑا گیا۔ ہندوستانی عوام کو بیدار ہونا چاہیے اور ایسی جنگی چالاکیوں کو مکمل طور پر مسترد کرنا چاہیے۔ ہمیں جنگ کو ‘نہیں’ کہنا چاہیے۔”

دوسری جانب پاکستانی عوام و سیاستدان متحد نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ پہلگام حملے کے پیچھے انڈیاکے بہت سے عزائم ہیں،  اگر انڈیا نے شرارت کی تو ایک کے بدلے دو کے تناسب سے جواب دیا جائے گا۔

اس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب دو ایٹمی طاقتیں جنگ کریں گی تو کون جیتے گا؟ کس کا پلہ بھاری ہے؟

ایک سابق انڈین کورکمانڈرنے اپنے ملک کی جنگی صلاحیتوں پر سوال اٹھا دیا ہے اور کہا ہے کہ انڈیا کے پاس پاکستان سے جنگ کی نہ اہلیت ہے نہ صلاحیت، ہمارے پاس ایسی تکنیکی برتری نہیں جو جنگی کارروائیاں بغیر کسی خوف کے انجام دینے کے لیے درکار ہوتی ہے، جیسے امریکا کرتاہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے وکیل جمال جعفر خان نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب دو ایٹمی طاقتیں جنگ کریں گی تو کوئی نہیں جیتے گا۔ ایٹمی جنگ میں صرف تباہی ہوگی، دونوں طرف ناقابلِ تصور جانی و مالی نقصان ہوگا اور انسانیت کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

2023 میں دی ایکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کے پاس 170 نیوکلیئر ہتھیار ہیں، جن کی تعداد تقریباً 200 ہے۔

 دوسری جانب فیڈریشن آف امیریکن سائینٹسٹ نے 26 مارچ 2025 کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ انڈیا کے پاس 180 نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان  کئی چھوٹی بڑی جنگیں ہوچکی ہیں،  پہلی جنگ 1947  میں تقسیم کے فوراً بعد پہلی جنگ کشمیر پرہوئی۔ بانی پاکستان نے کشمیر کا پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ اس جنگ کا نتیجہ  ایک عارضی جنگ بندی اور ایک مستقل مسئلہ نکلا، جو آج بھی اپنے حل کے لیے عالمی عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔

دوسری جنگ 1965 میں ہوئی جب رات کی تاریکی میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ لاہور کی فضا دھماکوں کی گھن گرج سے گونجتی رہی۔ دونوں جانب سے شدید لڑائی ہوئی، پاکستان نے دفاعی میدان میں تاریخ رقم کی۔ لیکن بات دوبارہ تاشقند کے معاہدے پر ختم ہوئی۔

تیسری جنگ1971میں ہوئی، جس میں انڈیا نے اپنی چالاکی کھل کر عیاں کی اور سازشوں کے گھیرے میں آ کر پاکستان نے اپنے مشرقی بازو کو کھو دیا۔

اورپھرآخری جنگ 1999 میں کارگل کے مقام پر ہوئی اور اس میں پاکستان کی فوجی پوزیشن نے انڈیاکو حیران کر دیا، لیکن عالمی دباؤ کے باعث پاکستان کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

نوجوان صحافی سراج حمید نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مستقل حل نہ نکلنے کی بڑی وجہ کشمیر کا حل طلب تنازع، باہمی عدم اعتماد، سیاست میں جنگی بیانیہ اور مسلسل مذاکرات کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سیاست بھی اہم وجہ ہے، عالمی طاقتیں جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی برداشت نہیں کرسکتیں، جس کی وجہ سے پشت پناہی کرکے اس مسئلے کو ابھی تک حل نہیں کیا گیا۔

یہ آج تک کی پاکستان انڈیا بڑی جنگیں ہیں لیکن پاکستان اور انڈیا کے درمیان صرف ہتھیاروں کی جنگ نہیں ہوتی بلکہ سوشل میڈیا، ڈیٹا شئیرنگ اور سب سے اہم پانی کی جنگ بدستور جاری ہے۔

پاکستان کو اندرون ممالک خوارج کا مسئلہ درپیش ہے، پاک فوج مغربی سرحد پر افغانستان سے ہونے والی دراندازی سے نمٹ رہی ہے، بلوچستان میں بی ایل اے کے دہشت گرد درد سر بنے ہوئے ہیں۔

انڈیا کو دیکھیں تو اس کی اپنی حالت خراب ہے، یہ طویل عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں مارکھارہا ہے، 8 لاکھ فوج ہونے کے باوجود پہلگام جیسے واقعات ہورہے ہیں ، منی پور میں بغاوت کی تحریک چل رہی ہے، تامل ناڈو، آسام میں الگ مسئلہ ہے، چینی سرحد پر بھی انڈین فوج مارکھارہی ہے۔

 انڈین سکھ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف نہیں لڑیں گے۔ خالصتان تحریک مودی سرکار کے درد سر ہے۔

تحریک خالصتان کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ انڈین اقلیتوں، بالخصوص سکھوں پر ہونے والے مظالم اب دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ ہم پاکستانی عوام کے ساتھ اینٹ کی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔یہ نہ 1965 ہے، نہ 1971 بلکہ 2025 ہے۔ ہم انڈین آرمی کو پنجاب سے گزر کر پاکستان پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اگر دیکھیں تو پاکستان میں سیاسی استحکام ہے اور پوری سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے مگر انڈین وزیراعظم کوسیاسی مخالفت کا سامنا ہے، انڈیا کے سنجیدہ صحافی حلقے بھی مودی کے اقدامات کو ڈرامہ قرار دے رہے ہیں ۔

ایڈوکیٹ جمال جعفر نے کہا ہے کہ ایسے حالات میں جنگ کا خطرہ موجود ضرور ہوتا ہے، مگر ایٹمی طاقت ہونے کے باعث دونوں ممالک عمومی طور پر مکمل جنگ سے گریز کرتے ہیں۔ محدود جھڑپیں یا سرجیکل اسٹرائیکس ممکن ہوتی ہیں، لیکن مکمل جنگ کے نتائج اتنے تباہ کن ہو سکتے ہیں کہ دونوں فریق اسے آخری حد سمجھتے ہیں۔

موجودہ دور میں جنگ گولیوں، ٹینکوں اور بارود سے نہیں بلکہ معیشت، ڈیٹا اور اب دریاؤں پر پابندیاں لگانا ہے، یہ سب “نرم جنگ”کی جدید شکلیں ہیں جو کسی بھی ملک کو بغیر گولی چلائے مفلوج کر سکتی ہیں۔

اگرچہ دونوں ممالک نیوکلیئر پاور ہیں اور دونوں کے پاس دنیا کی بہترین افواج موجودہے، مگراب دیکھنا یہ ہے کہ آیا دونوں ممالک جنگ کرتے ہیں، یا پھر کشمیر کے مسئلے کا پرامن حل ڈھونڈتے ہیں یا پھر ہمیشہ کی طرح وقتی جنگ بندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

اظہر تھراج

اظہر تھراج

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس