کہتے ہیں زمین اپنے راز پتھروں میں چھپا لیتی ہے اور کچھ راز ایسے ہوتے ہیں جو دیواروں، دروازوں اور برجوں کی صورت میں سانس لیتے ہیں۔
جب آپ جہلم کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں، تو تاریخ کی سرگوشیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔
یہ وہی سرزمین ہے جہاں وقت تھم سا جاتا ہے اور سامنے آتا ہے قلعہ روہتاس ایک ایسا قلعہ، جو صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ ایک عہد کی گونج ہے۔”
1541کی بات ہے. شیر شاہ سوری ایک عظیم سپہ سالار، ایک باکمال حکمران ایک خطرے سے دوچار تھا۔
گکھڑ قبائل، جو آزادی کے متوالے تھے، اُس کے اقتدار کے لیے چیلنج بنے ہوئے تھے۔
شیر شاہ کو ایک قلعہ چاہیے تھا، ایسا قلعہ جو دشمن کے خوابوں کو بھی دہلا دے۔
مگر یہ آسان نہ تھا
کہا جاتا ہے کہ جب قلعے کی تعمیر شروع ہوئی، مزدور خوف سے کانپ اٹھے۔
ہر پتھر رکھنے کے بدلے میں ایک اشرفی دی گئی، کیونکہ گکھڑوں کے خوف نے پورے علاقے پر سائے ڈال رکھے تھے۔
بالآخر، پسینے، حوصلے اور بے مثال حکمت عملی سے قلعہ روہتاس اپنی شان کے ساتھ کھڑا ہوا۔
چار کلومیٹر پر پھیلی بلند فصیلیں، 68 عظیم برج، 12 شاہانہ دروازے
اور وہ مشہور ہاتھی دروازہ، جو آج بھی آنے والوں کو ماضی کے درباروں کی جھلک دکھاتا ہے۔
ایسا قلعہ جس پر کبھی کوئی جنگ نہ لڑی گئی، کبھی کوئی یلغار نہ ہوئی۔”
مگر وقت کسی کا وفادار نہیں۔
صدیوں بعد، قلعے کے اندر بستیاں بس گئیں، دیواروں پر دراڑیں پڑ گئیں،
اور کئی عظیم دروازے اپنی عظمت کھونے لگے۔
لیکن قلعہ روہتاس آج بھی اپنی ہر اینٹ سے سرگوشی کرتا ہے
کہ جہاں حکمت، حوصلہ اور خواب ملتے ہیں، وہاں تاریخ بنتی ہے۔