Follw Us on:

“بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کرنا جامعات کی خودمختاری پر حملہ ہے  ” تدریسی عمل کا مکمل بائیکاٹ جاری

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
سندھ میں اساتذہ کی جانب سے تدریسی عمل کا مکمل بائیکاٹ جاری / گوگل

فیڈریشن آف آل پاکستان اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) سندھ شاخ کی اپیل پر آج سندھ کی تمام سرکاری جامعات میں تدریسی عمل مکمل طور پر معطل رہا۔ اساتذہ نے اتحاد و یکجہتی کے ساتھ اکیڈمک سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیا تاکہ حکومت کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ سندھ کی جامعات کو درپیش سنگین مسائل کو مزید نظرانداز کرنا ناقابلِ قبول ہے۔ یہ بائیکاٹ کل 16 جنوری سے جاری ہے۔

عبدالرحمان نانگراج جنرل سیکرٹری فپواسا سندھ شاخ  نے کہا کہ تمام یونیورسٹی اساتذہ کا شکریہ ادا کرتی ہے جنہوں نے آج کے احتجاج کو کامیاب بنایا۔ آپ کی یہ قربانی اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بچانے اور اس کے بحرانوں کو اجاگر کرنے میں اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ ہم تمام اساتذہ سے درخواست کرتے ہیں کہ   اسی اتحاد، عزم اور جذبے کے ساتھ احتجاج جاری رکھیں تاکہ حکومت ہمارے مطالبات کو سنجیدگی سے لے اور فوری طور پر عملی اقدامات کرے۔

انھوں نے اپنے مطالبات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جامعات کی خودمختاری کو بحال کیا جائے۔وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے یونیورسٹیز ایکٹ میں مجوزہ ترامیم واپس لی جائیں اور موجودہ ایکٹ کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس کے علاوہ یونیورسٹی اساتذہ کی تقرری مستقل بنیادوں پر کی جائے۔ اساتذہ کے این او سی جاری کرنے کا اختیار یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے بجائے وائس چانسلرز کے پاس رہنے دیا جائے۔

انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ جامعات کے مالی بحران کو ختم کرنے کے لیے فوری فنڈز فراہم کیے جائیں۔ ایچ ای سی یونیورسٹیوں کی خودمختاری کا احترام کرے۔ اساتذہ کے لیے ٹیکس میں 25 فیصد ریبیٹ ختم کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

عبدالرحمان نانگراج نے کہا کہ یہ جدوجہد سندھ کی اعلیٰ تعلیم کے تحفظ کی جنگ ہے۔ ہم سیاسی، سماجی، اور طلبہ تنظیموں کے علاوہ میڈیا کے نمائندوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس تحریک کا حصہ بنیں اور ہماری حمایت کریں۔آپ کا اتحاد ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے۔

واضح رہے کہ اس بائیکاٹ کی وجہ سندھ سرکار یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم  ہےجو چل رہی ہے، جس کے تحت اب کوئی بھی 20 یا 21 گریڈ کا آفیسر یونیورسٹی کا وائس چانسلر بن سکتا ہے۔ سندھ میں یہ فیصلہ ایک بڑا تنازعہ بن چکا ہے۔ یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم سراپا احتجاج کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ  فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) نے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے احتجاج کی حمایت کر دی ہے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی پاکستان منعم ظفرخان کا کہنا ہے کہ بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کرنا جامعات کی خودمختاری پر حملہ ہے۔ یہ تعلیم دشمن فیصلہ ناقابل قبول ہے، اس ظالمانہ فیصلے کو فوری واپس لیا جانا چاہیے۔

دوسری جانب اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے جامعات کا وقار مجروح ہوگا اور تعلیمی معیار متاثر ہوگا۔ اساتذہ کا مطالبہ ہے کہ وائس چانسلر کا انتخاب صرف ماہرین تعلیم میں سے ہی کیا جائے، اس کے لیے شفاف اور غیر جانبدار نظام بھی وضع کیا جائے۔

 ایسی صورتحال میں تعلیمی شعبے کو لے کر ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔ جامعات کی خودمختاری اور تعلیمی معیار کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ کیا حکومت اس احتجاج کو سن کر اپنا فیصلہ واپس لے گی؟  اس سوال کا جواب اب وقت ہی بتائے گا۔ بہرحال اساتذہ کی جانب سے پراثربائیکاٹ جاری ہے، اس بائیکاٹ کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ فیصلہ بھی وقت کرے گا۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس