یورپی یونین نے چین کے مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم TikTok پر 530 ملین یورو، تقریباً 600 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کردیا، یہ جرمانہ یورپی صارفین کے ذاتی ڈیٹا کو چین منتقل کرنے اور اسے چینی حکام کی ممکنہ دسترس سے محفوظ نہ رکھنے کے الزام میں عائد کیا گیا۔
یہ اقدام یورپی تاریخ میں دوسرا سب سے بڑا ڈیٹا پرائیویسی جرمانہ ہے جو اس وقت سامنے آیا جب آئرلینڈ کے ڈیٹا پروٹیکشن کمیشن (DPC) نے ایک تفصیلی تحقیقات کے بعد ٹک ٹاک کو جی ڈی پی آر (GDPR) کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا۔
تحقیقات کے مطابق ٹک ٹاک نے ماضی میں دعویٰ کیا تھا کہ یورپی صارفین کا ڈیٹا چین میں اسٹور نہیں ہوتا مگر اپریل میں کمپنی نے خود DPC کو آگاہ کیا کہ کچھ یورپی ڈیٹا واقعی چین میں محفوظ کیا گیا تھا اور بعد میں حذف کر دیا گیا۔
یہ اعتراف ایک ایسے وقت میں آیا جب ٹک ٹاک پہلے ہی مغربی دنیا کی نظروں میں مشکوک بنا ہوا ہے۔
ٹک ٹاک یورپ کی نمائندہ کرسٹین گراہن کا کہنا تھا کہ “ہم نے کبھی چینی حکام کو یورپی صارفین کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔“
ٹک ٹاک “یورپی صارفین کے ڈیٹا کو چینی ملازمین کی رسائی سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہا اور اس تحفظ کی ضمانت بھی نہیں دے سکا جس کا یورپی قانون تقاضا کرتا ہے۔”
یہ بھی پڑھیں: ’جاسوسی ہو رہی ہے‘، برطانیہ کی صارفین کو چینی الیکٹرک گاڑیوں میں موبائل فون چارج نہ کرنے کی ہدایت
تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ 2020 سے 2022 کے درمیان پلیٹ فارم نے یہ واضح نہیں کیا کہ صارفین کا ڈیٹا کن ممالک میں منتقل ہو رہا ہے اور اسے چین سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس غیر شفافیت پر ٹک ٹاک پر اضافی 45 ملین یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا۔
یہ صرف یورپ کی جنگ نہیں، بلکہ امریکا بھی اسی میدان میں سرگرم ہے۔ امریکی کانگریس نے 2024 میں قانون منظور کیا جس کے تحت ٹک ٹاک کی مالک کمپنی ByteDance کو امریکا میں TikTok سے دستبردار ہونا ہوگا ورنہ پابندی کا سامنا کرے گی۔
موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فیصلے پر دو بار عملدرآمد ملتوی کیا مگر اب 19 جون حتمی ڈیڈلائن ہے۔
ٹک ٹاک کی مشکلات صرف ڈیٹا کی منتقلی تک محدود نہیں۔ کمپنی پر الزام ہے کہ اس کا خفیہ الگورتھم صارفین کو مخصوص نظریات اور مواد کی دنیا میں قید کر دیتا ہے جہاں جعلی خبریں، پرتشدد مواد اور اخلاقی انحطاط کو فروغ ملتا ہے۔
کئی ممالک نے TikTok پر وقتی پابندیاں بھی عائد کیں، جیسے پاکستان، نیپال، اور فرانس (نیوکالیڈونیا کے علاقے میں) نے پلیٹ فارم کو بعض اوقات بند بھی کیا تھا۔
لازمی پڑھیں: آئی ایم ایف اور حکومتی پالیسی: کیا پاکستان میں ای ویز کے مسائل حل ہو پائیں گے؟
اس تنقید کے جواب میں ٹک ٹاک نے پراجیکٹ کلوور متعارف کروایا اور ایک 12 ارب یورو کا منصوبہ جو اگلے دس سالوں میں یورپی ڈیٹا سیکیورٹی پر خرچ کیا جائے گا۔
کمپنی کا کہنا تھا کہ یورپی ڈیٹا اب ناروے، آئرلینڈ اور امریکا میں اسٹور کیا جاتا ہے اور چینی ملازمین کو حساس ڈیٹا (جیسے فون نمبر، IP ایڈریس) تک رسائی نہیں دی جاتی)۔
مگر ڈی پی سی کا کہنا ہے کہ پراجیکٹ کلوور کے تحت ہونے والی تکنیکی جانچ نے خود انکشاف کیا کہ ماضی میں ڈیٹا واقعی چین میں محفوظ رہا اور TikTok نے یہ معلومات چھپانے کے بجائے “بر وقت” رپورٹ کیں۔
کمپنی کا اصرار ہے کہ “کوئی بھی ڈیٹا نہ تو باہر منتقل کیا گیا، نہ ہی کسی چینی اتھارٹی نے اس تک رسائی حاصل کی۔”
اب ٹک ٹاک کے پاس صرف چھ ماہ ہیں کہ وہ اپنے ڈیٹا پروسیسنگ سسٹمز کو یورپی قوانین کے مطابق بنائے، ورنہ چین کو ڈیٹا کی منتقلی ہمیشہ کے لیے معطل کی جا سکتی ہے۔
ایک جانب TikTok اپنی صفائی پیش کر رہا ہے تو دوسری طرف یورپی ریگولیٹرز ڈیجیٹل خودمختاری کے نئے باب رقم کر رہے ہیں۔