9 مئی 2023 کو پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن شمار کیا جا رہا ہے جس نے نہ صرف سیاسی فضاء کو دھندلا دیا بلکہ ریاست، عوام اور اداروں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں جو ردعمل سامنے آیا، اس میں احتجاج، توڑ پھوڑ، فوجی تنصیبات پر حملے، اور سوشل میڈیا پر شدید پروپیگنڈا شامل تھا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان پہلے ہی معاشی بحران، مہنگائی، اور سیاسی غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا۔ 9 مئی کے واقعات نے سیاسی مباحثے کو متشدد رخ دیا، اور ریاستی ادارے پہلی بار عوامی غصے کا براہ راست نشانہ بنے۔
ان واقعات کا سب سے خطرناک پہلو یہ تھا کہ روایتی احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ، سوشل میڈیا کا غیر معمولی اور منظم استعمال دیکھنے میں آیا۔ فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر ریاست مخالف بیانیے نہ صرف پھیلائے گئے بلکہ ان کی پروڈکشن میں AI ٹولز، Deepfake ویڈیوز، اور Bots کا استعمال بھی رپورٹ ہوا۔ کئی جعلی ویڈیوز، جن میں حساس مقامات پر حملے، مظلومیت کی جھوٹی کہانیاں یا ریاستی اداروں کی تضحیک شامل تھی، وائرل ہوئیں اور ان کے اثرات گلیوں تک محسوس کیے گئے۔
پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے لاہور یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر فریحہ نورین کہتی ہیں، ’’9 مئی کے واقعات ایک turning point تھے۔ ہم نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ روایتی سیاسی احتجاج کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل محاذ بھی کھل چکا تھا۔ اس میں سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ معلومات اور جذبات کا غلط استعمال کیا گیا۔ AI سے بنائی گئی جعلی آڈیوز، ویڈیوز اور تصویریں لوگوں کے غصے کو مزید بھڑکاتی رہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ عوام میں میڈیا لٹریسی کی کمی نے اس پروپیگنڈا کو اور بھی مؤثر بنا دیا۔

یہ سب کچھ صرف احتجاج تک محدود نہیں رہا۔ ان واقعات کے بعد ریاست کی جانب سے کریک ڈاؤن شروع ہوا، گرفتاریاں ہوئیں، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کچھ وقت کے لیے بند بھی کیا گیا۔ اس ردعمل نے ایک اور بحث کو جنم دیا — کہ کیا ریاستی سنسرشپ کا جواز بنتا ہے یا نہیں؟ ایک جانب حکومت نے اسے قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیا، تو دوسری طرف سیاسی کارکنوں نے اسے آزادیٔ اظہار پر حملہ کہا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ عدنان جاوید، جو سوشل میڈیا کے ماہر بھی ہیں، پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پاکستان میں اب سوشل میڈیا صرف ایک تفریحی پلیٹ فارم نہیں رہا بلکہ یہ سیاسی میدان بن چکا ہے۔ 9 مئی کو جو مواد وائرل ہوا، اس میں سے 60 فیصد سے زائد یا تو گمراہ کن تھا یا مکمل طور پر جھوٹا۔ Deepfake آڈیوز نے لوگوں کو اس قدر کنفیوز کیا کہ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ کون سچ بول رہا ہے۔‘‘ عدنان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں حکومت کو چاہیئے کہ وہ اظہار رائے پر قدغن لگانے کے بجائے، عوام میں آگاہی بڑھائے تاکہ وہ جعلی مواد کی پہچان کر سکیں۔
یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں رہا۔ دنیا بھر میں AI اور پروپیگنڈا کے باہمی تعلق پر بحث جاری ہے۔ امریکہ، بھارت، روس، اور چین جیسے ممالک میں انتخابات سے قبل جعلی مواد کا سیلاب آنا معمول بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی تقسیم گہری ہے، وہاں ایسی ٹیکنالوجیز زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ 9 مئی کے بعد مختلف اداروں نے رپورٹ کیا کہ کئی سوشل میڈیا پوسٹس، جو بظاہر پاکستان سے تھیں، درحقیقت بیرون ملک سے چلائی جا رہی تھیں اور ان کا مقصد ریاستی عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔

اسلام آباد سے نوجوان وکیل اور سیاسی تجزیہ کار صائمہ خلیل پاکستان میٹرز کو بتاتی ہیں، ’’یہ سچ ہے کہ 9 مئی کے ردعمل میں حکومت کی کچھ کارروائیاں ضرورت سے زیادہ سخت تھیں، لیکن یہ بھی ماننا ہو گا کہ ریاستی اداروں پر حملہ کوئی جمہوری طریقہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت نے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر جذباتی طور پر یرغمال بنا لیا ہے۔ AI کے ذریعے تیار کردہ جذباتی ویڈیوز، ترانے، اور جعلی مظلومیت کی کہانیاں ایک مخصوص بیانیے کو تقویت دیتی ہیں، جو پھر ریاست اور عوام کو آمنے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہو؟ کیا پاکستان کی سیاست اس جذباتی اور تکنیکی جنگ سے نکل سکے گی؟ کیا کوئی ایسی پالیسی بن سکتی ہے جو سوشل میڈیا کو ایک مثبت پلیٹ فارم کے طور پر فروغ دے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: پہلی، سوشل میڈیا صارفین کی ڈیجیٹل تعلیم؛ دوسری، قانون سازی جو اظہار رائے اور قومی سلامتی کے درمیان توازن رکھے؛ اور تیسری، سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری کہ وہ سچ اور جھوٹ کے فرق کو اپنے کارکنوں کو سکھائیں۔
9 مئی کے واقعات نے ایک سبق ضرور دیا ہے کہ ٹیکنالوجی اگر درست استعمال نہ ہو تو وہ صرف آسانی نہیں بلکہ خطرہ بھی بن سکتی ہے۔ پروپیگنڈا، جعلی خبریں اور AI کے ذریعے جذبات کو بھڑکانا سیاست کو اصلاح کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے انتقام کی جنگ میں بدل دیتا ہے۔ ریاست، عوام، اور سیاسی رہنماؤں کو اب یہ سمجھنا ہو گا کہ اس جنگ میں کوئی بھی مستقل فاتح نہیں ہو سکتا۔ اصل جیت تب ہو گی جب ہم سچ، شعور، اور برداشت کو اپنی سیاست کا حصہ بنا لیں۔